زمانہ طالب علمی میں بعض ساتھیوں سے سنا کرتا تھا کہ "لفظ صحیح خود ہی صحیح نہیں ہے"۔ اس وقت کبھی اس جملے کی طرف دھیان ہی نہیں گیا مگر ابھی چند دنوں پہلے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھا جس میں لکھا تھا "الصحیح لیس بصحیح" تو ساتھیوں کی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں اور ایام طالب علمی کے حسیں خیالوں میں غوطہ زن ہونے لگا: کمروں میں ساتھیوں کے ساتھ بحث وتکرار، درس گاہ میں اساتذہ کرام کی مخلصانہ گفتگو، شام کے وقت ہوٹلوں پر ادھر ادھر کی باتیں، کھاتے وقت ساتھیوں کے سامنے سے پلیٹوں کی ادلا بدلی، قرب امتحان کا رت جگا۔ ابھی انہیں سب خیالوں میں گم ہو کر مسکرا ہی رہا تھا کہ اچانک دروازے سے سلام کی آواز آئی دیکھا تو ایک شاگرد ہاتھ میں کتاب لیے کھڑا تھا اندر بلایا تو فن نحو کی مشہور کتاب "نحومیر" ہاتھوں میں لیے تھا اندر آتے ہی صفحات پلٹنے لگا اور اعراب مضارع کی بحث سے ایک دو جملے کا ترجمہ تشریح پوچھ کر چلا گیا۔ وہ طالب علم چلا تو گیا مگر میری نظریں اس بحث کی تہہ تک جانے کو تیار ہوگئیں اور ذہن نے ورق گردانی شروع کردی کہ فعل مضارع کی دو قسمیں ہیں: صحیح، معتل، جنہیں باعتبار وجوہ اعراب چار صورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مگر قابل غور بات تو یہ ہے کہ ہم نے علم الصیغہ، فصول اکبری وغیرہ کتب صرف میں کلمات متصرفہ کی چار قسمیں پڑھیں تھی: صحیح، مہموز، معتل، مضاعف۔ مگر یہاں صرف دو ہی کا ذکر ہے پھر جب صحیح اور معتل کی تعریف پہ غور کیا تو پتہ چلا کہ نحویوں کے نزدیک سبھی قسمیں صحیح میں شامل ہیں سواے معتل لام یعنی ناقص کے، کیوں کہ ان کے نزدیک صحیح وہ کلمہ ہے جس کے آخر میں حرف علت نہ ہو۔ اور معتل وہ کلمہ ہے جس کے آخر میں حرف علت ہو مطلب یہ ہوا کہ صرفیوں کے نزدیک جو معتل لام ہے وہ نحویوں کے نزدیک مطلقاً معتل ہے اور صرفیوں کے نزدیک جو معتل فاء وعین، لفیف مفروق و مقرون، مہموز فاء، عین و لام، اور مضاعف ثلاثی ورباعی ہیں اگر ان کے آخری کلمے کی جگہ حرف علت نہیں ہے تو نحویوں کے نزدیک وہ کلمے صحیح ہیں، جبکہ صرفیوں کے نزدیک صحیح وہ کلمہ ہے جس کے حروف اصلی میں کوئی حرف علت، ہمزہ اور دو حرف ایک جنس کے نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی صرفیوں کے نزدیک صحیح کی تعریف ذہن میں آئی ہی تھی کہ فورا لفظ "صحیح" کا خیال دوبارہ انگڑائیاں لینے لگا کیوں کہ ابھی تک جو سنتے آیا تھا "الصحیح لیس بصحیح" وہ کبھی غلط ثابت ہورہا تھا اور کبھی صحیح۔ کیوں کہ اگر اس لفظ "صحیح" کو نحیوں کی کسوٹی میں جانچا جاے تو اس کے آخر میں حرف علت نہیں ہے لہذا نحویوں کے مطابق وہ صحیح ثابت ہوا اور اگر صرفیوں کے مطابق اس کی تفتیش کی جاے تو وہ صحیح نہیں بلکہ مضاعف ہے کیوں کہ اس میں دو حرف ایک ہی جنس کے ہیں۔
0 تبصرے