Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

خشیت الہی رکھنے والوں کو کورونا سے ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں

تحریر:شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری
دور موسوی ہو یا دور مصفوی   جب بھی  معبودان باطلہ کے پیروکاروں نے اسلام کو مٹانے کی ناپاک  سازشیں  رچیں  ہیں ۔ تو رب دوجہاں نے  ہر لحاظ سے اسلام مخالف دشمنوں  کے منصوبوں کو تہ تیغ کرکے  دین اسلام کو بلندیوں سے سرفراز کیا ۔  جو ملحدین کے لیے تباہی   اور مومنین  کے لیے    تحصیل عبرت ہوا کرتی ہے ۔ 

        حالیہ بر ایں طرز  ایک  وبا کا عذاب الہی کی صورت میں ایسے ہی ذہنیت رکھنے والے  افراد کے  زمین ( چین ) پر وجود ہوا۔ جنہوں نے اسلام دشمنی کو اپنا تکیہ بنا لیا تھا ___  اذان پر پابندی ، نماز پر پابندی ، حجاب پر پابندی  غرض کہ پابندئ اسلام  ہی میں ان کی تہذیب و ثقافت  عروج پا رہی تھی  ۔ نتیجتا بلندیاں بر ایں طرز  پہونچ گئی تھی ، نہ رہن سہن میں تہذیب  و تمدن  کی کوئی جھلک ، نہ کھا نے پینے میں انسانیت کی کوئی رمق ۔ 

           صرف ظاہرا انسانی صورت سے مزین تھے ،  حتی کہ درندگی حیوانوں سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی سانپ ، بچھو ، حشرات الارض ان کے ماکولات و مشروبات بن بیٹھے ۔ غرض  کہ  کسی بھی انگل سے انسان زندگی جینے کا  تصور کیا ہی نہیں جا سکتا   ۔


 اور بالاخر نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ جب  خداوند قہار کی ضرب پڑی تو حیوانیت سی  زندگی بسر کرنے والوں کا راز فاش ہوگیا  ۔  چہار جانب سے ایوان باطل میں  واویلا مچ گیا اور حساد مسجدوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔ وہی جگہ جس جگہ پر اذان و نماز کی پابندیاں  عائد کی گئی  تھی اسی جگہ پر وہی کے گورنروں کو با ضابطہ  نماز کی ادائیگی کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے   ۔       

        اور چہرہ اور بدن کو ماسک اور پلا سٹیک کے ذریعہ ڈھک کر چلنے پر مجبور ہو گئے  ۔ غرض کہ وہی چین جس نے ماوں اور بہنوں کو حجاب سے دور رکھ کر اک نئی موڈرن تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش میں فحاشییت و  عریا نیت کی مثال قائم کردی تھی ۔  ایسے ہی غلیظ ذہنیت کے مالک افراد کو آج  اسلام کی صداقت ،عظمت و حرمت کا اقرار کرنا پڑا  اور حجاب کے تقدس کے سامنے  منھ کے بل گڑ پڑ کر اہل جہاں کے سامنے ندامت کے آنسو چھلکانے پڑے   حتی کہ آج پوری دنیا میں سر کو ڈھکنے ، اور ہاتھ منھ کو بار بار دھونے کی تاکیدیں جاری ہیں  ___ جس سے اسلام کی عظمت و شان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ 

یہ آج جب  کرونا عنادین  کی حیات پر موت کا نعرہ بلند کر نے لگی  _  حیران و پریشاں ہو کر موت کی گنتیاں  گننا شروع ہو گئے _  دیکھتے ہی دیکھتے طبیب  گاہوں پر سنناٹا چھا نے لگا ، 

 ڈاکٹرس اس کا علاج کرنے اور وبا کی تحقیق میں حیران و ششدر رہ گئے۔  یہاں  تک کہ ہزارہا افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ 

Remember ! GOD COME TO SEE WITHOUT  BELL .

یاد رکھیں ! اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ یہ عذاب ہے ۔  جو اللہ نے ہر دور میں  عنادین اسلام کی تباہی بر ایں طرز مقرر فرمائی ۔  

 جو اس وجہ سے دکھنے کو ملا کہ منمانیاں اتنی چلی کہ کسی بھی قانون و شریعت کا پاس و لحاظ نہ رہا ، عیش پرشتی میں دیگر مخلوق خداوندی کے حقوق کی حفاظت باقی نہ رہیں  جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ "مرغ رشتہ بپا  " کے مثل " ان بطش ربك لشديد "  کی گرفت میں گرفتار ہو گئے  جس نے  پوری دنیا میں آج  کرونا وائرس کی صورت میں حشر بپا کر رکھا ہے ۔   اور سو سے زائد ملکوں پر  پورے طریقے سے اپنا جال بچھا رکھا ہے۔

 جس کی حیرت بیانی کا تذکرہ 

           ہرطرح کی میڈیا پر کیا جا رہا ۔  جس میں ماسک پہننے  اور جسم کو چھوپانے ، اور بار بار ہاتھ و منھ کی دھولائی پر زور دیا جا رہا ہے ۔  

       حتی کہ اس کے جڑ تک پہونچنے کے  حال ہی میں  عالمی ادارہ صحت کے اشارے پر 

 یونیورسٹی کالج آف لندن کے پروفیسر کیٹ جونز ، زولیجکل پروفیسر  اینڈریو کنگھم کے وفد نے چین کا دورہ کیا اور وائرس کے 

  وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوا کہا کہ  کرونا وائرس پہلے  صرف  چمگاڈر کے اندر پایا جاتا تھا لیکن معاملہ یہ ہوا کہ  ہوا  میں اڑتی ایک چمگادڑ نے اپنی لید میں کورونا وائرس چھوڑا  پھر یہ  ہوا کہ یہ وائرس جنگل کی زمین پر گرا جہاں پینگولین نام کے جانور کے اندر بھی یہ وائرس ملا،  جو چینی تہذیب کی نفیس خوراک بھی  مانی جاتی ہے ۔ اور پھر یہی سے 

یہ وائرس دوسرے جانوروں کو بھی متاثر کرنے لگا ، اور  یہ متاثرہ جانور چینیوں کی خوراک بنتے تھے ۔ پھر اسی طریقے سے  یہ   بیماری انسانوں کے  اندر  پھیلنا  شروع ہو گیا  ۔ 

جو  اب تک   ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اس بیماری سے متاثر  ہو چکے ہیں جبکہ  چینی سرکاری رپورٹ کے مطابق  3600 سے زائد افراد  ہلاک بھئ  ہوچکے ہیں۔  یادرکھیں 

کہ وائرس  یہ اللہ کا عذاب ہےغفلت میں پڑے سوئے ہوئے ، تباہی و بربادی کے  راستے پر چل پڑے امت کو جگانے کا اک  الارم ہے _ کہ  فرعونیت کے راستے سے واپس ہوجاو  ، اللہ کی خشیت کو اپنے دل میں بسائو  ، کیوں کہ اللہ کا خوف اللہ کے قرب، بخشش ، نجات اور رحمتوں کے حصول کا واحد راستہ ہے  جیسا کہ ارشاد  باری تعالی  ہے" میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو عن قریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا  جو متقی ہیں اور زکوة دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں " ( سورة الأعراف ) __

  یقینا یہ ساری وبائیں اور مصیبتیں آج جو قوم مسلم پر ٹوٹ رہی ہیں یہ ہماری ہی کالے کرتوتوں کا نتیجہ  ہے ۔   جو آج  ہمیں مختلف مشکلات سے دوچار کر رہی ہیں ۔ 

  خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں ! 

 یقینا رب سے ہمارا جو لگا و تھا ، جو تقوی و طہارتیں تھیں ، وہ سب کی  سب اک مغربی یلغاروں کی پست پناہیاں کر رہی ہیں ۔ جو قابل شرمناک ہے ! 

 ہم نے غیروں کی نقل کرنے میں اپنی  تہذیب و ثقافت کو گوا ں ڈالی  جس کے نتیجے میں ہمارے دلوں میں خوف خداوندی کی جگہ لوگوں کا ڈر پنپنے لگا ، بربادیاں  حصے میں آئیں ، اور آئے دن ہماری  حالات زندگی    مشکل سے  مشکل تر ہوتی چلی جارہی ہے ۔ 

آئیے جانیں کہ  کس خشیت کو آج ہم اپنے دلوں میں جگہ دے بیٹھے ہیں !    اور کس خشیت کو ہمیں دل میں جگہ دینی چاہیے تھی   جس کے متروک العمل ہی سے بربادیاں نصیبہ  بن بیٹھی  ! 

     یاد رکھیں ! 

خشیت کے معنی خوف کے ہیں اور خشیتِ الٰہی سے مراد اللہ کا خوف۔ خشیتِ الٰہی دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اللہ کا ایسا خوف جس میں محبت اورا حترام کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ 

 ابوالقاسم العلیم کا قول ہے کہ خوف دو قسم کا ہے۔

1 ۔ رھبہ

2 ۔ خشیہ

صاحبِ الرھبہ جب کسی سے ڈرتا ہے تو بھاگ جاتا ہے اور صاحبِ الخشیہ جب ڈرتا ہے تو اپنے ربّ سے دعا کرتا ہے۔ ابو حفص نے خشیت کی تشریح یوں فرمائی ہے ’’ قلبِ مومن میں خشیت وہ شمع ہے جس کی روشنی کی بدولت وہ خیروشر میں فرق کر سکتا ہے۔‘‘

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ترجمہ: ایمان والے صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے)خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں ) اپنے ربّ پر توکل (قائم) رکھتے ہیں۔ ( سورہ انفعال )

* وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن۔ 46)

ترجمہ: ’’اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور (پیشی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔

* وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo( النزعت۔ 41-40 )

ترجمہ: ’’ اور جو شخص اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اس نے (اپنے) نفس کو (بُری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بے شک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگا۔‘‘

احادیث مبارکہ میں بھی بارہا خشیتِ الٰہی کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے:

* حضرت انس بن مالک رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ الٰہی کی بنا پر اس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘ ( امام حاکم، ابنِ ابی شیبہ اور طبرانی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جب اللہ ربّ العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی ’’اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دن صحابہؓ میں یہ آیت تلاوت فرمائی ایک نوجوان یہ آیت سن کر بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اے نوجوان کہو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس نے یہ کلمہ پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے جنت کی بشارت سنائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا وہ ہم میں سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ’’یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدہ(عذاب ) سے خائف ہوا۔‘‘ ( سورۃ ابراہیم۔14)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آیت ’’ والذی یوتون ما اتواو قلوبھم وجلۃ‘‘ (اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ وہ دے سکتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں) کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اے صدیق کی بیٹی! نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی نیکیاں قبول نہ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جوبھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی، ابنِ ماجہ)

حقیقی مومنین تو وہ ہیں جو مقدور بھر عمل کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں کہ معلوم نہیں ہمارے اعمال اللہ کے ہاں مقبول ہوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اعمال ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ قصوروار نکل آئیں اور یہ نیکیاں رَدّ کر دی جائیں۔ خوف کی اصل وجہ گناہ نہیں بلکہ وہ احساس ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے حقوق کی اہمیت کے بارے میں وہ اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور ایک مومن کے دل میں خوف کی اس کیفیت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ آدمی کسی بھی حال میں بے خوف اور مطمئن نہ بیٹھا رہے اسے اللہ تعالیٰ سے اچھی اُمید بھی ہو مگر وہ اللہ کی بے نیازی کی صفت سے لرزاں بھی رہے، ایسے ہی لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھتے ہیں۔

نیوٹن جب دنیا میں اپنی نت نئی ایجادات کی وجہ سے بہت ترقی پا چکا تھا اس وقت اس نے اس بات کو سمجھ لیا تھا اور کہا تھا’’ ہم جو کچھ معلوم کر سکے ہیں وہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے جن رموز سے ہم ناواقف ہیں۔ ہماری حالت اس شخص کی ہے جس کے ہاتھ میں سمندر کی چند گھونگھیاں آگئی ہیں جبکہ سمندر میں ابھی بے شمارقیمتی خزانے موجود ہیں۔‘‘ نیوٹن کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ فطرت کے جو قوانین اس نے دریافت کیے ہیں وہ ان کے سامنے کچھ بھی نہیں جو ابھی اس سے پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح جب مومن کو اس کا احساس ہو جاتا ہے کہ اس کے ذمہ کتنے کام ہیں جو وہ کرسکتا تھا مگر یوں ہی پڑے ہیں اور جو کام اس نے کیے ہیں وہ اس عظمت و جلال والے ربّ کے ہاں قابلِ قبول بھی ہیں کہ نہیں‘ اس وقت اس پر خشیتِ الٰہی کی ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ روئے اور گڑگڑائے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سورۃ آلِ عمران میں کہ  یہ(خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو توا ن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے، سے ڈرتے ہیں جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔
 آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل بھی خشیتِ الٰہی سے لبریز تھا۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھبرا کر اس طرح خوف سے کھڑے ہوگئے کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں آئے اور نماز میں طویل قیام، رکوع اور سجدہ کیا ۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے ان نشانیوں کو بھیجتا ہے جب تم اس قسم کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا اور استغفار کی پناہ میں آؤ۔‘‘ (متفقہ علیہ) 
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاں گیر وجہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا ۔
اللہ تمام طرح کی مصیبتوں سے امت کی حفاظت فرما ۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Comments