تحریر:مولانا قمر انجم قادری فیضی
عالم اسلام آج جس دورسے گذر رہاہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے، اسلام اور مسلمان ابتلاء وآزمائش کےکٹھن حالات سے دوچارہے، کس بھی حساس دل اور زندہ دل رکھنے والا شخص اس بات سے شاید باخبرنہیں ہےدیگر مسائل واحوال ایک طرف رواں ایام میں وبائی مرض کرونا کےخوف اور اندیشوں نےجس طرح سےپوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے شاید انسانی تاریخ میں اتنے وسیع پیمانےپر کسی وبائی مرض کے پھیلاؤ کی مثال ملتی ہو، کرہِ ارض پر مشرق سےلیکرمغرب اور شمال سےجنوب تک ہر ملت ومذہب کےافرادپرجس طرح اس وباء جا قہر جاری وساری ہے یہ عبرت انگیز ہونے کےساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کےوجوداورقدرت کابین ثبوت ہے مزیدبرآں شايد چودہ سو سال میں آج پہلی بار ایسا ہواہے کہ آج کی تاریخ کا پہلا جمعہ ہوگاجو دنیا بھرمیں بہت سے مسلمان ادا کرنے سے محروم ہوئے،یقیناً مسجدوں میں آج بسےسناٹے، اور مزیدموسم کا بدلتارنگ اک الگ سی غم واندوہ کی کیفیت کا پتہ دے رہا تھا، مسجدوں میں وہ مسلمان جو ایک ہفتے میں صرف اور صرف مسجدمیں اس دن اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، خدائےتعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنے، اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریزہونےکےلئے آتے تھے وہ بھی آج سرجھکانےسےقاصررہے،
جب جمعہ مبارکہ کا مقدس ومطہر نورانی عرفانی، دلکش حسین، پیارا منظر نگاہوں کے سامنے آتاہے تو آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں، وہ جگمگاتے آئمہ و خطباء کے پر نور چہروں سے مزین محراب آہ،اور افسوس!.آج خالی تھے ۔وہ دوڑ دوڑ کر غسل کر کے عطر لگا کر مسجد کی صفوں کو آراستہ کرنے والے مناظر افسوس آج نہیں نظر آئے وہ قال اللہ وقال الرسول کی دلفریب وروح پرورصدائیں سننےکونہیں ملی،جہاں آج کے دن مسجدوں میں بچوں اورہم عمروں کے سفیدپوشاک سے ملبوس، ہزاروں کی تعدادمیں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اسکی تعریف وتوصیف بیان کرنےسےمنبومحراب منورومجلی ہوتےتھے،اور دل کے اندھیرےمیں روشنی نمودارہوتی تھی،۔یہ کیسا امتحان ہےائےخداتو ہمیں معاف فرما یقیناً ہم نے بہت کوتاہیاں کی ہیں، بہت ساری غلطیاں کی ہیں، ہم گناہوں پر گناہیں کرتے جاریےہیں، خطاؤں پر خطائیں کرتے جارہے ہیں، اور وہ لوگ یادکریں جب بہت سے جمعے گھر بیٹھ کر خطبہ ختم ہونے کا انتظار کرتے رہتےتھے اور مسجد جانے میں جان بوجھ کر تاخیر کرتےتھے، ، افسوس صدافسوس! آج ہم ایں سعادت سے محروم رہ گئے،۔۔اے پروردگار تیرے حضور التجا کرتے ہیں ہم سے اس وباء کو دور فرما ۔۔ اور پھر سے وہ روز جمعہ کی نور بھری صفوں کو دیکھنا نصیب فرما ۔۔ وہ خطیب کے دلکش نصیحتیں وہ قال اللّٰہ و قال الرّسول کی صد آئیں ۔وہ امام کا صف درست کرنے کا اعلان ۔وہ نماز کے بعد حضور کی بارگاہ میں درود و سلام ۔۔آج یہ حسین ودلکش مناظروروح پرور، ایمان افروزساعتیں بہت بہت یادآئے، قارئین کرام حکومت کے سخت رویوں اور احتیاطی تدابیرکی بنیادپر، اور مفتیان کرام کےاپیل وگذارشات،پر تمام مسلمانوں نےآج جمعہ پڑھنےکےبجائے ظہرکی نماز اپنے اپنے گھروں میں اداکی، ہماراآج جو یہ حال ہے یہ ہمارے کرتوتوں اور کارناموں کی وجہ سے ہے، اسی کے تناظرمیں تاریخ کےزریں صفحات سےحدیث پاک کی روشنی میں کچھ سنہرےنقوش تلاش وجستجوسےحاصل کئےگئےہیں وہ باتیں جس سے ایمان کی خوشبوآئے، اور ایمان کوجِلابخشنی والی حدیثیں،اور ان واقعات وحادثات سے درسِ عبرت حاصل کریں، خوف خدا دل میں پیداکریں، اوراپنے گناہوں سے توبہ واستغفارکریں، ام المؤمنین حضرت سیدناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سےوباکےبارےمیں دریافت کیاکہ توآپ نےارشافرمایا، یہ ایک عذاب ہےجسے اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر چاہتا ہے بھیجتاہے اور اسی کو ایمان والوں کےلئے رحمت بناتاہے توکوئی بھی بندہ اگر اسی وباکا شکار ہوجاتاہےاوراپنےہی شہرمیں صبرکرتاہے، اور اَجرَ کی نیت کرتاہے اور اس بات پریقین کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر لکھا ہوتبھی یہ اسے نقصان پہنچا سکتی ہے، تواسکےلئےشہید کےبرابرثواب ہے، (بخاری شریف) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جب تم کسی جگہ کےبارےمیں سنوکہ وہاں پروبا پھیل چکی ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور اگر تم جس جگہ پر ہووہاں پروبا پھیل گئی ہو تو وہاں سے نہ بھاگو، پہلی حدیث کےمطابق وہ گنہ گارلوگوں کےلئےعذاب الہی بن کرآتی ہے جب کہ نیک لوگوں کوکوئی نقصان ہو یا کسی کی موت واقع ہو جائے تو اس کو شہادت کا درجہ ملتاہے بس اسکی ایک شرط یہ ہے کہ اسے یقین ہوکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نےلکھ رکھاتھا، اور اللہ تعالیٰ کےحکم کےبنا کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ ایک طرف برےلوگوں کےلئے بڑی دھمکی ہے جبکہ نیک لوگوں کےلئے بہت بڑی خوش خبری ہے، ہماری بندگی میں کچھ کمی ہے ورنہ، تیرا در تو رحمتوں کا خزانہ ہے (1)*بُری نیت سےاور بُری جگہ پر مال خرچ کرنےکاانجام* بری نیت سے اور بری جگہ پر مال خرچ کرنے کا انجام بہت سخت ہے،اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو رشوت کے ذریعے دنیا کا عہدہ اور منصب حاصل کرنے لئے اور شادی کی ناجائز رسموں کو پورا کرنے کے لئے بے تحاشہ مال خرچ کرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی درس حاصل کریں کہ جو ظاہری طور پر تو نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کر رہے ہیں لیکن ان کی نیت یہ ہے کہ اس عمل سے لوگ ان کی واہ واہ کریں اورلوگوں کےبیچ میں ان کی نیک نامی مشہور ہو۔ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ ( 1 ) حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ ’قیامت کے دن انسان اپنے رب کی بارگاہ سے اس وقت تک قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک اس سے ان پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے( 1 ) اس کی زندگی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں گزارا۔ ( 2 ) اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں صَرف کیا۔( 3 ، 4 ) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے مال کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔( 5 ) اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸ ، الحدیث: ۲۴۲۴ ) ( 2 ) حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا تو اس نے شرک کیا،جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی تو اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کاری کرتے ہوئے صدقہ کیا تو اس نے شرک کیا۔ ( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان .. الخ، ۵ / ۳۳۷ ، الحدیث: ۶۸۴۴ ) اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور انہیں اپنی بگڑی عادتیں اور خراب حالات درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔مَصائب اور تکالیف میں بے شمار حکمتیں ہیں ، یاد رہے کہ ان مَصائب اور تکالیف میں اللّٰہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ،ہمارا نفسِ اَمّارہ مست گھوڑا ہے، اگر اس کے منہ میں ان تکالیف کی لگام نہ ہو تو یہ ہمیں ہلا ک کردے گا کیونکہ ان تکالیف کی لگام کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ ظلم اور قتل و غارت گری انسان نے کی ،چوری ڈکیتی کی وارداتوں کا مُرتکِب انسان ہوا،فحاشی و عُریانی کے سیلاب انسان نے بہائے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ حتّٰی کہ خدائی تک کا دعویٰ انسان نے کیا اور اگر ان تکالیف کی لگام ہٹالی جائے تو انسان کا جو حال ہو گاوہ تصوُّر سے بالا تر ہے۔ (2)*زبان کی اہمیت اور اس کی حفاظت کی ترغیب* اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو زبان عطا کی اور اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی، اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے انسان کلام کرتا اور اپنے دل کی بات بیان کرتا ہے،اس کے ذریعے معاملات سر انجام دیتا اور کھانے والی چیزوں کے ذ ائقے معلوم کرتا ہے اور اگر انسان کی زبان نہ ہوتی یا زبان تو ہوتی لیکن اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کو اپنے معاملات سر انجام دینے کے لئے اشارے اور تحریر کا سہارا لینا پڑتا اور اس سے جو دشواری ہوتی اس کا اندازہ گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کو دیکھ کر کیاجا سکتا ہے اور اس نعمت پراللّٰہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائے وہ کم ہے۔حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اچھی اور نیک باتوں کے علاوہ انسان کم کلام کیا کرے اور فضول و بے فائدہ کلام نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ نے جو زبان کو منہ کے اندر رکھا اور اس کے آگے دو ایسے ہونٹ بنا دئیے جنہیں کھولے بغیر کلام ممکن نہیں، اس میں یہی حکمت ہے تاکہ بندہ اپنے ہونٹوں کو بند کر کے ان سے کلام نہ کر سکنے پر مدد حاصل کرے۔ ( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۹ ، ۱۰ / ۴۳۶ ) اور بکثرت اَحادیث میں زبان کی حفاظت کرنے کی ترغیب اور خاموش رہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 5 اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ ( 1 ) حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نےرسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض کی: نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا’’ اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطائوں پر رؤ و۔ ( ترمذی ، کتاب الزہد ، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲ ، الحدیث: ۲۴۱۴ ، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثانی، ۲ / ۱۹۳ ، الحدیث: ۴۸۳۷ ) ( 2 ) حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو سارے اَعضاء زبان کی خوشامد کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں’’ ہمارے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈر کہ ہم تیرے ساتھ ہیں، تو سیدھی رہے گی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۲۴۱۵ ) ( 3 ) حضرت سفیان بن عبداللّٰہ ثقفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’ میں نے عرض کی: یا رسولَاللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جن چیزوں کا آپ مجھ پر خو ف کرتے ہیں ان میں زیادہ خطرناک کیا چیز ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :یہ(یعنی تمہاری زبان سب سے زیادہ خطرناک ہے) ۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۴ ، الحدیث: ۲۴۱۸ ) ( 4 ) حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ر وایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو خاموش رہا نجات پاگیا ۔ ( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما ، ۲ / ۵۵۱ ، الحدیث: ۶۴۹۱ ) ( 5 ) حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کا خاموشی پر ثابت رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔ ( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشّتم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۹۷ ، الحدیث: ۴۸۶۵ ) لہذا اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی زبان جیسی عظیم نعمت کی اہمیت کو سمجھیں ،اس نعمت کے ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکراداکریں، (3) *کھائی والوں کاواقعہ* یہاں کھائی والوں کاجو واقعہ ذکر کیا گیا اس کے بارے میں حضرت صہیب رومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم سے پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا :اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں ،آپ میرے پاس ایک لڑکا بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھادوں،بادشاہ نے اس کے پاس جادو سیکھنے کے لئے ایک لڑکا بھیج دیا،وہ لڑکا جس راستے سے گزر کرجادو گر کے پاس جاتا اس راستے میں ایک راہب رہتا تھا،وہ لڑکا (روزانہ) اس راہب کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سننے لگا اور اُس راہب کا کلام اِس لڑکے کے دل میں اترتاجا رہا تھا ۔جب وہ لڑکا جادو گر کے پاس پہنچتا تو (دیر سے آنے پر) جادو گر اسے مارتا۔لڑکے نے راہب سے اس کی شکایت کی تو راہب نے کہا:جب تمہیں جا دو گر سے خوف ہو تو کہہ دینا:گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے خوف ہو تو ان سے کہہ دینا کہ جادو گر نے مجھے روک لیا تھا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری تھا کہ اسی دوران ایک بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ بند کر دیا، لڑکے نے سوچا :آج میں آزماؤں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب؟ چنانچہ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، اگر تجھے راہب کے کام جادو گر سے زیادہ پسند ہیں تو اس پتھر سے جانور کو ہلاک کر دے تاکہ لوگ راستے سے گزر سکیں ۔ چنانچہ جب لڑکے نے پتھر مارا تو وہ جانور اس کے پتھر سے مر گیا۔پھر اس نے راہب کے پاس جاکر اسے اس واقعے کی خبر دی تو اس نے کہا: اے بیٹے! آج تم مجھ سے افضل ہو گئے ہو،تمہارا مرتبہ وہاں تک پہنچ گیا ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں ۔ عنقریب تم مصیبت میں گرفتار ہو گے اور جب تم مصیبت میں گرفتار ہو تو کسی کو میرا پتا نہ دینا(اس کے بعد اس لڑکے کی دعائیں قبول ہونے لگیں ) اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض اچھے ہونے لگ گئے اور وہ تمام بیماریوں کا علاج کرنے لگا ۔ بادشاہ کا ایک ساتھی نابینا ہوگیا تھا ، اس نے جب یہ خبر سنی تو وہ اس لڑکے کے پاس بہت سے تحائف لے کر آیا اور اس سے کہا:اگر تم نے مجھے شفا دےدی تو میں یہ سب چیزیں تمہیں دے دوں گا۔ لڑکے نےکہا:میں کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفا تو اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے،اگر تم اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ تو میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعاکروں گا اور وہ تمہیں شفا عطا کردے گا۔ چنانچہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آیاتو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے شفا دے دی۔جب وہ بادشاہ کے پاس گیا اور پہلے کی طرح اس کے پاس بیٹھا تو بادشاہ نے پوچھا:تمہاری بینائی کس نے لوٹائی ہے؟اس نے کہا: میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ۔بادشاہ نے کہا:کیا میرے سوا تیرا کوئی رب ہے؟ اس نے کہا :ہاں ! میرا اور تمہارا رب اللّٰہ تعالیٰ ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک اس نے لڑکے کا پتا نہ بتا دیا۔پھر اس لڑکے کو لایا گیا اور بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹے!تمہارا جادو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تم مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کر دیتے ہو،برص کے مریضوں کو تندرست کر دیتے ہو اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتے ہو۔اس لڑکے نے کہا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفا تو میرا اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک اس نے راہب کا پتا نہ بتا دیا۔پھر راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔راہب نے انکار کیا تو بادشاہ نے آرا منگوا کر اس کے سر کے درمیان رکھا اور اسے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔ پھراس نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔ اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے بھی آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔پھر اس لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔اس لڑکے نے انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا: اس لڑکے کو فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاؤ، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ورنہ اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔وہ لوگ اس لڑکے کو لے کر گئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔اس لڑکے نے دعا کی! اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔اسی وقت ایک زلزلہ آیا اور وہ سب لوگ پہاڑ سے نیچے گر گئے۔اس کے بعد وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا! جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔بادشاہ نے پھر اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اسے ایک کشتی میں سوار کر کے سمندر کے وسط میں لے جاؤ،اگر یہ اپنا دین چھوڑ دے تو ٹھیک ورنہ اسے سمندر میں پھینک دینا۔وہ لوگ اسے سمندر میں لے گئے تو ا س نے دعا کی:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔وہ کشتی فوراً الٹ گئی اور اس لڑکے کے علاوہ سب لوگ غرق ہو گئے۔وہ لڑکا پھر بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے پوچھا:جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔پھر اس نے بادشاہ سے کہا: تم مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکو گے جب تک میرے کہنے کے مطابق عمل نہ کرو۔بادشاہ نے وہ عمل پوچھا تو لڑکے نے کہا: تم ایک میدان میں سب لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کھجور کے تنے پر سولی دو، پھر میرے تَرکَش سے ایک تیر نکال کر بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامْ کہہ کر مجھے مارو،اگر تم نے ایسا کیا تو وہ تیر مجھے قتل کر دے گا۔چنانچہ بادشاہ نے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اس لڑکے کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کر کے تیر چھوڑدیا، وہ تیر لڑکے کی کنپٹی میں پَیْوَسْت ہو گیا،لڑکے نے تیر لگنے کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور انتقال کرگیا۔ یہ دیکھ کر تمام لوگوں نے کہا کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ کو اس واقعے کی خبردی گئی اور اس سے کہا گیا کہ کیا تم نے دیکھا کہ جس سے تم ڈرتے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے وہی کچھ تمہارے ساتھ کر دیا اور تمام لوگ ایمان لے آئے۔ اس نے گلیوں کے دہانوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا،جب ان کی کھدائی مکمل ہوئی تو ان میں آگ جلوائی گئی،پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ جواپنے دین سے نہ پھرے اسے آگ میں ڈال دو۔چنانچہ لوگ اس آگ میں ڈالے جانےلگے یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اسکی گودمیں بچہ تھا ،وہ ذرا جھجکی توبچے نے کہا: اے ماں صبر کر! اور جھجھک نہیں تو سچے دین پر ہے اور وہ بچہ اور ماں بھی آگ میں ڈال دیئے گئے( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب قصۃ اصحاب الاخدود الخ، ص ۱۶۰۰ ، الحدیث: ۷۳(۳۰۰۵) ) اور حضرت ربیع بن انس رضی المولی عنہ فرماتے ہیں کہ جو مومن آگ میں ڈالے گئے اللّٰہ تعالیٰ نےاُن کے آگ میں پڑنے سے پہلے ہی اُن کی رُوحیں قبض فرما کر انہیں نجات دی اور آگ نے خندق کے کناروں سے باہر نکل کر کنارے پر بیٹھے ہوئے کفار کو جلا دیا۔ ( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۵ ، ۴ / ۳۶۶ ) کھائی والوں کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات: اس واقعہ سے6 باتیں معلوم ہوئیں : ( 1 ) امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس واقعہ میں اہلِ ایمان کو صبر کرنے اور کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تَحَمُّل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ( مدارک، البروج، تحت الآیۃ: ۷ ، ص ۱۳۳۶ ) ( 2 ) اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کی کرامات برحق ہیں ۔ ( 3 ) ولایت عمل اور عمر پر مَوقوف نہیں بلکہ چھوٹے بچوں کو بھی ولایت مل جاتی ہے،حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا مادر زاد وَلِیَّہ تھیں ۔ ( 4 ) بزرگوں کی صحبت کا فیض عبادات سے زیادہ ہے۔ ( 5 ) جس دین میں اولیاء موجود ہوں وہ اس دین کی حقّانِیَّت کی دلیل ہے۔ ( 6 ) اللّٰہ والوں سے ان کی وفات کے بعد بھی ہدایت ملتی رہتی ہے، وہ اپنےقبروں میں زندہ رہتے ہیں، مگر ہم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، (4)دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو* میز پر رکھا موبائل بجنے لگا جب نگاہ پڑی تو ہم خوشی سے مچل اٹھے کہ اس بوریت والے ایام میں کسی رشتہ دار سے بات کر کے ذرا دل بہلانے کا موقع ملا لیکن افسوس کہ.........کال اٹھاتے ہی ادھر سے آنے والی افسردہ و غمزدہ صدا کانوں سے ٹکرائی جب گھبرا کر خیریت پوچھا تو دل دہلا دینے والی ہچکیاں سننے کو ملیں - اللہ اللہ،، واقعی اس وقت کی کیفیت کو قرطاس پر رقم کرنا دشوار ہے جب انھوں نے کہا کہ گزشتہ گئی دنوں سے کاروبار کی بندی کے باعث چاول ختم ہو گیا اب بس دال روٹی پر گزارا ہے اور اس اکیس (٢١) دن کے لاک ڈاؤن میں کیا ہوگا بیٹی کی دوائیاں بھی ختم ہو گئیں اور کمائی کے سارے راستے بند!! اللہ اکبر کبیرا!...یہ کہہ کر انھوں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کال کاٹ دیا - مگر وہیں ہم سب سبھی کو بھی اضطراب نے آ گھیرا اور اپنی اس کوتاہی پر بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے یومیہ کمانے والے رشتہ دار کو خود کال کر کے اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنا پڑا - اب ہم نے ان کے مسئلہ کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کی اور تمام ایسے متعلقین کی خبر گیری کی آرزو جاگ اٹھی - قارئین کرام! یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت کی عکاسی ہے - آج بہت سے ایسے گھر ہیں جو دال روٹی اور نمک چاول کھانے کے لیے بھی سوچ میں پڑے ہیں اور نجانے کتنے مریض ایسے ہیں جو دوائیوں کے بغیر مرے جا رہے ہیں کہ ان کی آمدنی کی راہیں بند اور جمع پونجی تھی ہی نہیں اور اگر تھوڑی بہت تھی بھی تو ختم - اب وہ کریں تو کیا؟ صدقہ کا بہترین وقت آج معاشرے کے ہر فرد کی مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے رشتہ داروں کی خبر لے اگر آپ سے کوئی کمتر اور زیادہ پریشان حال ہے تو ضرور پہلے اس کی مدد کریں اپنے سال بھر کے ذخائر سے ان کو ہفتہ بھر کا اناج ضرور دیں - پھر اپنے ہم پڑوسیوں، محلوں اور دیگر متعلقین کے حالات سے ضرور آگاہی حاصل کریں اور ان کی مالی معاونت کریں - آپ کے رب نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے :”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-“ اے ایمان والو! ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کر لو جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی اور نہ شفاعت ہوگی -{البقرة؛ ٢٥٤} یعنی موت اور محشر کے دن سے پہلے ہی غرباء کی مدد کرو، مساکین پر رحم کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، مریضوں کے علاج میں معاونت کرو قبل اس کے کہ تمھارے ذخائر دنیا میں رہ جائیں اور تمھیں خالی ہاتھ وہاں جانا پڑے جہاں نہ صدقہ کی برکت اور نہ خیرات کی روشنی ہو - ہمیں کرنا کیا ہے؟ یہ بات مسلم ہے کہ ہر غریب و امیر کی آمدنی بند ہے لیکن کچھ لوگوں کے پاس مالی وسعت و کفایت شعاری کی وجہ سے مال و اناج کا ذخیرہ ہے اور ایک طبقہ وہ بھی ہے کہ جن کو مال جمع کرنے کی قطعی مہلت نہیں ہوتی یومیہ کماتے کھاتے ہیں جو آج لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید پریشانی کے عالم میں ہیں ہم اہلِ وسعت پر لازم ہے کہ آج ان کی مدد کریں : (1)مال زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا انتظار نہ کریں بلکہ ابھی ہی اگر کوئی حاجت مند ہے تو فرض زکات کو پیشگی ادا کر کے ان کی امداد کریں - (2)اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی تنخواہوں کو روکیں نہ بلکہ غریبوں کو ایک دو مہینے کی اڈوانس سیلری دے دیں - (3)جن متوسط لوگوں سے آپ نے تنگی کے زمانے میں قرض لیا تھا اگر آج آپ کو وسعت ہے اور وہ تنگدست تو جلد از جلد ان کی رقم کو واپس کریں، قرض ادا کر دیں - (4) اس دور پُر بلا و الوباء میں اپنی اور اہل خانہ کی حفاظت کے لیے نفلی صدقہ و خیرات کر کے آنے والی بلاؤں کو دفع کریں - (5)ضرورت مندوں کو قرض حسن دے کر سہارا دیں - الغرض امداد کی تمام صورتوں پر نظر دوڑائیں اور جو آپ کے لائق ہو اسے اپنا کر معاشرے کے لیے سود مند فرد بنیں - اے کاش! ہمارے پورے ملک سے بالخصوص ہماری قوم سے کسی ایک غریب کے رونے کی ویڈیو نیوز چینلز پر نظر نہ آئے، بھوک سے نڈھال کسی مفلس کی سر عام عزت نفس مجروح نہ ہو، دوائیوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی مریض مرتا ہوا نظر نہ آئ
جب جمعہ مبارکہ کا مقدس ومطہر نورانی عرفانی، دلکش حسین، پیارا منظر نگاہوں کے سامنے آتاہے تو آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں، وہ جگمگاتے آئمہ و خطباء کے پر نور چہروں سے مزین محراب آہ،اور افسوس!.آج خالی تھے ۔وہ دوڑ دوڑ کر غسل کر کے عطر لگا کر مسجد کی صفوں کو آراستہ کرنے والے مناظر افسوس آج نہیں نظر آئے وہ قال اللہ وقال الرسول کی دلفریب وروح پرورصدائیں سننےکونہیں ملی،جہاں آج کے دن مسجدوں میں بچوں اورہم عمروں کے سفیدپوشاک سے ملبوس، ہزاروں کی تعدادمیں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اسکی تعریف وتوصیف بیان کرنےسےمنبومحراب منورومجلی ہوتےتھے،اور دل کے اندھیرےمیں روشنی نمودارہوتی تھی،۔یہ کیسا امتحان ہےائےخداتو ہمیں معاف فرما یقیناً ہم نے بہت کوتاہیاں کی ہیں، بہت ساری غلطیاں کی ہیں، ہم گناہوں پر گناہیں کرتے جاریےہیں، خطاؤں پر خطائیں کرتے جارہے ہیں، اور وہ لوگ یادکریں جب بہت سے جمعے گھر بیٹھ کر خطبہ ختم ہونے کا انتظار کرتے رہتےتھے اور مسجد جانے میں جان بوجھ کر تاخیر کرتےتھے، ، افسوس صدافسوس! آج ہم ایں سعادت سے محروم رہ گئے،۔۔اے پروردگار تیرے حضور التجا کرتے ہیں ہم سے اس وباء کو دور فرما ۔۔ اور پھر سے وہ روز جمعہ کی نور بھری صفوں کو دیکھنا نصیب فرما ۔۔ وہ خطیب کے دلکش نصیحتیں وہ قال اللّٰہ و قال الرّسول کی صد آئیں ۔وہ امام کا صف درست کرنے کا اعلان ۔وہ نماز کے بعد حضور کی بارگاہ میں درود و سلام ۔۔آج یہ حسین ودلکش مناظروروح پرور، ایمان افروزساعتیں بہت بہت یادآئے، قارئین کرام حکومت کے سخت رویوں اور احتیاطی تدابیرکی بنیادپر، اور مفتیان کرام کےاپیل وگذارشات،پر تمام مسلمانوں نےآج جمعہ پڑھنےکےبجائے ظہرکی نماز اپنے اپنے گھروں میں اداکی، ہماراآج جو یہ حال ہے یہ ہمارے کرتوتوں اور کارناموں کی وجہ سے ہے، اسی کے تناظرمیں تاریخ کےزریں صفحات سےحدیث پاک کی روشنی میں کچھ سنہرےنقوش تلاش وجستجوسےحاصل کئےگئےہیں وہ باتیں جس سے ایمان کی خوشبوآئے، اور ایمان کوجِلابخشنی والی حدیثیں،اور ان واقعات وحادثات سے درسِ عبرت حاصل کریں، خوف خدا دل میں پیداکریں، اوراپنے گناہوں سے توبہ واستغفارکریں، ام المؤمنین حضرت سیدناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سےوباکےبارےمیں دریافت کیاکہ توآپ نےارشافرمایا، یہ ایک عذاب ہےجسے اللہ تعالیٰ جن لوگوں پر چاہتا ہے بھیجتاہے اور اسی کو ایمان والوں کےلئے رحمت بناتاہے توکوئی بھی بندہ اگر اسی وباکا شکار ہوجاتاہےاوراپنےہی شہرمیں صبرکرتاہے، اور اَجرَ کی نیت کرتاہے اور اس بات پریقین کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر لکھا ہوتبھی یہ اسے نقصان پہنچا سکتی ہے، تواسکےلئےشہید کےبرابرثواب ہے، (بخاری شریف) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جب تم کسی جگہ کےبارےمیں سنوکہ وہاں پروبا پھیل چکی ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور اگر تم جس جگہ پر ہووہاں پروبا پھیل گئی ہو تو وہاں سے نہ بھاگو، پہلی حدیث کےمطابق وہ گنہ گارلوگوں کےلئےعذاب الہی بن کرآتی ہے جب کہ نیک لوگوں کوکوئی نقصان ہو یا کسی کی موت واقع ہو جائے تو اس کو شہادت کا درجہ ملتاہے بس اسکی ایک شرط یہ ہے کہ اسے یقین ہوکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نےلکھ رکھاتھا، اور اللہ تعالیٰ کےحکم کےبنا کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ ایک طرف برےلوگوں کےلئے بڑی دھمکی ہے جبکہ نیک لوگوں کےلئے بہت بڑی خوش خبری ہے، ہماری بندگی میں کچھ کمی ہے ورنہ، تیرا در تو رحمتوں کا خزانہ ہے (1)*بُری نیت سےاور بُری جگہ پر مال خرچ کرنےکاانجام* بری نیت سے اور بری جگہ پر مال خرچ کرنے کا انجام بہت سخت ہے،اس سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو رشوت کے ذریعے دنیا کا عہدہ اور منصب حاصل کرنے لئے اور شادی کی ناجائز رسموں کو پورا کرنے کے لئے بے تحاشہ مال خرچ کرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی درس حاصل کریں کہ جو ظاہری طور پر تو نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کر رہے ہیں لیکن ان کی نیت یہ ہے کہ اس عمل سے لوگ ان کی واہ واہ کریں اورلوگوں کےبیچ میں ان کی نیک نامی مشہور ہو۔ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل دو اَحادیث میں بھی بڑی عبرت ہے،چنانچہ ( 1 ) حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’ ’قیامت کے دن انسان اپنے رب کی بارگاہ سے اس وقت تک قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک اس سے ان پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے( 1 ) اس کی زندگی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں گزارا۔ ( 2 ) اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں صَرف کیا۔( 3 ، 4 ) اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے مال کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔( 5 ) اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸ ، الحدیث: ۲۴۲۴ ) ( 2 ) حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا تو اس نے شرک کیا،جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی تو اس نے شرک کیا اور جس نے ریا کاری کرتے ہوئے صدقہ کیا تو اس نے شرک کیا۔ ( شعب الایمان، الخامس والاربعون من شعب الایمان .. الخ، ۵ / ۳۳۷ ، الحدیث: ۶۸۴۴ ) اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے حال پر رحم فرمائے اور انہیں اپنی بگڑی عادتیں اور خراب حالات درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔مَصائب اور تکالیف میں بے شمار حکمتیں ہیں ، یاد رہے کہ ان مَصائب اور تکالیف میں اللّٰہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں ہیں ،ہمارا نفسِ اَمّارہ مست گھوڑا ہے، اگر اس کے منہ میں ان تکالیف کی لگام نہ ہو تو یہ ہمیں ہلا ک کردے گا کیونکہ ان تکالیف کی لگام کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ ظلم اور قتل و غارت گری انسان نے کی ،چوری ڈکیتی کی وارداتوں کا مُرتکِب انسان ہوا،فحاشی و عُریانی کے سیلاب انسان نے بہائے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ حتّٰی کہ خدائی تک کا دعویٰ انسان نے کیا اور اگر ان تکالیف کی لگام ہٹالی جائے تو انسان کا جو حال ہو گاوہ تصوُّر سے بالا تر ہے۔ (2)*زبان کی اہمیت اور اس کی حفاظت کی ترغیب* اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو زبان عطا کی اور اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی، اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے انسان کلام کرتا اور اپنے دل کی بات بیان کرتا ہے،اس کے ذریعے معاملات سر انجام دیتا اور کھانے والی چیزوں کے ذ ائقے معلوم کرتا ہے اور اگر انسان کی زبان نہ ہوتی یا زبان تو ہوتی لیکن اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کو اپنے معاملات سر انجام دینے کے لئے اشارے اور تحریر کا سہارا لینا پڑتا اور اس سے جو دشواری ہوتی اس کا اندازہ گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کو دیکھ کر کیاجا سکتا ہے اور اس نعمت پراللّٰہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائے وہ کم ہے۔حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اچھی اور نیک باتوں کے علاوہ انسان کم کلام کیا کرے اور فضول و بے فائدہ کلام نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ نے جو زبان کو منہ کے اندر رکھا اور اس کے آگے دو ایسے ہونٹ بنا دئیے جنہیں کھولے بغیر کلام ممکن نہیں، اس میں یہی حکمت ہے تاکہ بندہ اپنے ہونٹوں کو بند کر کے ان سے کلام نہ کر سکنے پر مدد حاصل کرے۔ ( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۹ ، ۱۰ / ۴۳۶ ) اور بکثرت اَحادیث میں زبان کی حفاظت کرنے کی ترغیب اور خاموش رہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 5 اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ ( 1 ) حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نےرسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض کی: نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا’’ اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطائوں پر رؤ و۔ ( ترمذی ، کتاب الزہد ، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲ ، الحدیث: ۲۴۱۴ ، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثانی، ۲ / ۱۹۳ ، الحدیث: ۴۸۳۷ ) ( 2 ) حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو سارے اَعضاء زبان کی خوشامد کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں’’ ہمارے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈر کہ ہم تیرے ساتھ ہیں، تو سیدھی رہے گی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۳ ، الحدیث: ۲۴۱۵ ) ( 3 ) حضرت سفیان بن عبداللّٰہ ثقفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں’ میں نے عرض کی: یا رسولَاللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، جن چیزوں کا آپ مجھ پر خو ف کرتے ہیں ان میں زیادہ خطرناک کیا چیز ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :یہ(یعنی تمہاری زبان سب سے زیادہ خطرناک ہے) ۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۴ ، الحدیث: ۲۴۱۸ ) ( 4 ) حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ر وایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو خاموش رہا نجات پاگیا ۔ ( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما ، ۲ / ۵۵۱ ، الحدیث: ۶۴۹۱ ) ( 5 ) حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کا خاموشی پر ثابت رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔ ( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشّتم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۹۷ ، الحدیث: ۴۸۶۵ ) لہذا اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی زبان جیسی عظیم نعمت کی اہمیت کو سمجھیں ،اس نعمت کے ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکراداکریں، (3) *کھائی والوں کاواقعہ* یہاں کھائی والوں کاجو واقعہ ذکر کیا گیا اس کے بارے میں حضرت صہیب رومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تم سے پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادو گر تھا، جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا :اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں ،آپ میرے پاس ایک لڑکا بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھادوں،بادشاہ نے اس کے پاس جادو سیکھنے کے لئے ایک لڑکا بھیج دیا،وہ لڑکا جس راستے سے گزر کرجادو گر کے پاس جاتا اس راستے میں ایک راہب رہتا تھا،وہ لڑکا (روزانہ) اس راہب کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سننے لگا اور اُس راہب کا کلام اِس لڑکے کے دل میں اترتاجا رہا تھا ۔جب وہ لڑکا جادو گر کے پاس پہنچتا تو (دیر سے آنے پر) جادو گر اسے مارتا۔لڑکے نے راہب سے اس کی شکایت کی تو راہب نے کہا:جب تمہیں جا دو گر سے خوف ہو تو کہہ دینا:گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے خوف ہو تو ان سے کہہ دینا کہ جادو گر نے مجھے روک لیا تھا۔ یہ سلسلہ یونہی جاری تھا کہ اسی دوران ایک بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ بند کر دیا، لڑکے نے سوچا :آج میں آزماؤں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب؟ چنانچہ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہا:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، اگر تجھے راہب کے کام جادو گر سے زیادہ پسند ہیں تو اس پتھر سے جانور کو ہلاک کر دے تاکہ لوگ راستے سے گزر سکیں ۔ چنانچہ جب لڑکے نے پتھر مارا تو وہ جانور اس کے پتھر سے مر گیا۔پھر اس نے راہب کے پاس جاکر اسے اس واقعے کی خبر دی تو اس نے کہا: اے بیٹے! آج تم مجھ سے افضل ہو گئے ہو،تمہارا مرتبہ وہاں تک پہنچ گیا ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں ۔ عنقریب تم مصیبت میں گرفتار ہو گے اور جب تم مصیبت میں گرفتار ہو تو کسی کو میرا پتا نہ دینا(اس کے بعد اس لڑکے کی دعائیں قبول ہونے لگیں ) اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض اچھے ہونے لگ گئے اور وہ تمام بیماریوں کا علاج کرنے لگا ۔ بادشاہ کا ایک ساتھی نابینا ہوگیا تھا ، اس نے جب یہ خبر سنی تو وہ اس لڑکے کے پاس بہت سے تحائف لے کر آیا اور اس سے کہا:اگر تم نے مجھے شفا دےدی تو میں یہ سب چیزیں تمہیں دے دوں گا۔ لڑکے نےکہا:میں کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفا تو اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے،اگر تم اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ تو میں اللّٰہ تعالیٰ سے دعاکروں گا اور وہ تمہیں شفا عطا کردے گا۔ چنانچہ وہ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لے آیاتو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے شفا دے دی۔جب وہ بادشاہ کے پاس گیا اور پہلے کی طرح اس کے پاس بیٹھا تو بادشاہ نے پوچھا:تمہاری بینائی کس نے لوٹائی ہے؟اس نے کہا: میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے ۔بادشاہ نے کہا:کیا میرے سوا تیرا کوئی رب ہے؟ اس نے کہا :ہاں ! میرا اور تمہارا رب اللّٰہ تعالیٰ ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک اس نے لڑکے کا پتا نہ بتا دیا۔پھر اس لڑکے کو لایا گیا اور بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹے!تمہارا جادو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ تم مادر زاد اندھوں کو ٹھیک کر دیتے ہو،برص کے مریضوں کو تندرست کر دیتے ہو اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرتے ہو۔اس لڑکے نے کہا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفا تو میرا اللّٰہ تعالیٰ دیتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس وقت تک اسے اَذِیَّت دیتا رہا جب تک اس نے راہب کا پتا نہ بتا دیا۔پھر راہب کو لایا گیا اور اس سے کہا گیا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔راہب نے انکار کیا تو بادشاہ نے آرا منگوا کر اس کے سر کے درمیان رکھا اور اسے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔ پھراس نے اپنے ساتھی کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔ اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے بھی آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا۔پھر اس لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ اپنے دین سے پھر جاؤ۔اس لڑکے نے انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے چند ساتھیوں سے کہا: اس لڑکے کو فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاؤ، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ورنہ اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔وہ لوگ اس لڑکے کو لے کر گئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔اس لڑکے نے دعا کی! اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔اسی وقت ایک زلزلہ آیا اور وہ سب لوگ پہاڑ سے نیچے گر گئے۔اس کے بعد وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا! جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔بادشاہ نے پھر اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا کہ اسے ایک کشتی میں سوار کر کے سمندر کے وسط میں لے جاؤ،اگر یہ اپنا دین چھوڑ دے تو ٹھیک ورنہ اسے سمندر میں پھینک دینا۔وہ لوگ اسے سمندر میں لے گئے تو ا س نے دعا کی:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ، تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔وہ کشتی فوراً الٹ گئی اور اس لڑکے کے علاوہ سب لوگ غرق ہو گئے۔وہ لڑکا پھر بادشاہ کے پاس چلا گیا تو بادشاہ نے پوچھا:جو لوگ تمہارے ساتھ گئے تھے ان کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا۔پھر اس نے بادشاہ سے کہا: تم مجھے اس وقت تک قتل نہیں کر سکو گے جب تک میرے کہنے کے مطابق عمل نہ کرو۔بادشاہ نے وہ عمل پوچھا تو لڑکے نے کہا: تم ایک میدان میں سب لوگوں کو جمع کرو اور مجھے کھجور کے تنے پر سولی دو، پھر میرے تَرکَش سے ایک تیر نکال کر بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلَامْ کہہ کر مجھے مارو،اگر تم نے ایسا کیا تو وہ تیر مجھے قتل کر دے گا۔چنانچہ بادشاہ نے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اس لڑکے کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کر کے تیر چھوڑدیا، وہ تیر لڑکے کی کنپٹی میں پَیْوَسْت ہو گیا،لڑکے نے تیر لگنے کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور انتقال کرگیا۔ یہ دیکھ کر تمام لوگوں نے کہا کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ بادشاہ کو اس واقعے کی خبردی گئی اور اس سے کہا گیا کہ کیا تم نے دیکھا کہ جس سے تم ڈرتے تھے اللّٰہ تعالیٰ نے وہی کچھ تمہارے ساتھ کر دیا اور تمام لوگ ایمان لے آئے۔ اس نے گلیوں کے دہانوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا،جب ان کی کھدائی مکمل ہوئی تو ان میں آگ جلوائی گئی،پھر بادشاہ نے حکم دیا کہ جواپنے دین سے نہ پھرے اسے آگ میں ڈال دو۔چنانچہ لوگ اس آگ میں ڈالے جانےلگے یہاں تک کہ ایک عورت آئی اور اسکی گودمیں بچہ تھا ،وہ ذرا جھجکی توبچے نے کہا: اے ماں صبر کر! اور جھجھک نہیں تو سچے دین پر ہے اور وہ بچہ اور ماں بھی آگ میں ڈال دیئے گئے( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب قصۃ اصحاب الاخدود الخ، ص ۱۶۰۰ ، الحدیث: ۷۳(۳۰۰۵) ) اور حضرت ربیع بن انس رضی المولی عنہ فرماتے ہیں کہ جو مومن آگ میں ڈالے گئے اللّٰہ تعالیٰ نےاُن کے آگ میں پڑنے سے پہلے ہی اُن کی رُوحیں قبض فرما کر انہیں نجات دی اور آگ نے خندق کے کناروں سے باہر نکل کر کنارے پر بیٹھے ہوئے کفار کو جلا دیا۔ ( خازن، البروج، تحت الآیۃ: ۵ ، ۴ / ۳۶۶ ) کھائی والوں کے واقعے سے حاصل ہونے والی معلومات: اس واقعہ سے6 باتیں معلوم ہوئیں : ( 1 ) امام عبداللّٰہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس واقعہ میں اہلِ ایمان کو صبر کرنے اور کفارِ مکہ کی ایذا رسانیوں پر تَحَمُّل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ( مدارک، البروج، تحت الآیۃ: ۷ ، ص ۱۳۳۶ ) ( 2 ) اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کی کرامات برحق ہیں ۔ ( 3 ) ولایت عمل اور عمر پر مَوقوف نہیں بلکہ چھوٹے بچوں کو بھی ولایت مل جاتی ہے،حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا مادر زاد وَلِیَّہ تھیں ۔ ( 4 ) بزرگوں کی صحبت کا فیض عبادات سے زیادہ ہے۔ ( 5 ) جس دین میں اولیاء موجود ہوں وہ اس دین کی حقّانِیَّت کی دلیل ہے۔ ( 6 ) اللّٰہ والوں سے ان کی وفات کے بعد بھی ہدایت ملتی رہتی ہے، وہ اپنےقبروں میں زندہ رہتے ہیں، مگر ہم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، (4)دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو* میز پر رکھا موبائل بجنے لگا جب نگاہ پڑی تو ہم خوشی سے مچل اٹھے کہ اس بوریت والے ایام میں کسی رشتہ دار سے بات کر کے ذرا دل بہلانے کا موقع ملا لیکن افسوس کہ.........کال اٹھاتے ہی ادھر سے آنے والی افسردہ و غمزدہ صدا کانوں سے ٹکرائی جب گھبرا کر خیریت پوچھا تو دل دہلا دینے والی ہچکیاں سننے کو ملیں - اللہ اللہ،، واقعی اس وقت کی کیفیت کو قرطاس پر رقم کرنا دشوار ہے جب انھوں نے کہا کہ گزشتہ گئی دنوں سے کاروبار کی بندی کے باعث چاول ختم ہو گیا اب بس دال روٹی پر گزارا ہے اور اس اکیس (٢١) دن کے لاک ڈاؤن میں کیا ہوگا بیٹی کی دوائیاں بھی ختم ہو گئیں اور کمائی کے سارے راستے بند!! اللہ اکبر کبیرا!...یہ کہہ کر انھوں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کال کاٹ دیا - مگر وہیں ہم سب سبھی کو بھی اضطراب نے آ گھیرا اور اپنی اس کوتاہی پر بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے یومیہ کمانے والے رشتہ دار کو خود کال کر کے اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنا پڑا - اب ہم نے ان کے مسئلہ کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کی اور تمام ایسے متعلقین کی خبر گیری کی آرزو جاگ اٹھی - قارئین کرام! یہ ہمارے معاشرے کی حقیقت کی عکاسی ہے - آج بہت سے ایسے گھر ہیں جو دال روٹی اور نمک چاول کھانے کے لیے بھی سوچ میں پڑے ہیں اور نجانے کتنے مریض ایسے ہیں جو دوائیوں کے بغیر مرے جا رہے ہیں کہ ان کی آمدنی کی راہیں بند اور جمع پونجی تھی ہی نہیں اور اگر تھوڑی بہت تھی بھی تو ختم - اب وہ کریں تو کیا؟ صدقہ کا بہترین وقت آج معاشرے کے ہر فرد کی مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے رشتہ داروں کی خبر لے اگر آپ سے کوئی کمتر اور زیادہ پریشان حال ہے تو ضرور پہلے اس کی مدد کریں اپنے سال بھر کے ذخائر سے ان کو ہفتہ بھر کا اناج ضرور دیں - پھر اپنے ہم پڑوسیوں، محلوں اور دیگر متعلقین کے حالات سے ضرور آگاہی حاصل کریں اور ان کی مالی معاونت کریں - آپ کے رب نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے :”یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-“ اے ایمان والو! ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کر لو جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی اور نہ شفاعت ہوگی -{البقرة؛ ٢٥٤} یعنی موت اور محشر کے دن سے پہلے ہی غرباء کی مدد کرو، مساکین پر رحم کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، مریضوں کے علاج میں معاونت کرو قبل اس کے کہ تمھارے ذخائر دنیا میں رہ جائیں اور تمھیں خالی ہاتھ وہاں جانا پڑے جہاں نہ صدقہ کی برکت اور نہ خیرات کی روشنی ہو - ہمیں کرنا کیا ہے؟ یہ بات مسلم ہے کہ ہر غریب و امیر کی آمدنی بند ہے لیکن کچھ لوگوں کے پاس مالی وسعت و کفایت شعاری کی وجہ سے مال و اناج کا ذخیرہ ہے اور ایک طبقہ وہ بھی ہے کہ جن کو مال جمع کرنے کی قطعی مہلت نہیں ہوتی یومیہ کماتے کھاتے ہیں جو آج لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید پریشانی کے عالم میں ہیں ہم اہلِ وسعت پر لازم ہے کہ آج ان کی مدد کریں : (1)مال زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا انتظار نہ کریں بلکہ ابھی ہی اگر کوئی حاجت مند ہے تو فرض زکات کو پیشگی ادا کر کے ان کی امداد کریں - (2)اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی تنخواہوں کو روکیں نہ بلکہ غریبوں کو ایک دو مہینے کی اڈوانس سیلری دے دیں - (3)جن متوسط لوگوں سے آپ نے تنگی کے زمانے میں قرض لیا تھا اگر آج آپ کو وسعت ہے اور وہ تنگدست تو جلد از جلد ان کی رقم کو واپس کریں، قرض ادا کر دیں - (4) اس دور پُر بلا و الوباء میں اپنی اور اہل خانہ کی حفاظت کے لیے نفلی صدقہ و خیرات کر کے آنے والی بلاؤں کو دفع کریں - (5)ضرورت مندوں کو قرض حسن دے کر سہارا دیں - الغرض امداد کی تمام صورتوں پر نظر دوڑائیں اور جو آپ کے لائق ہو اسے اپنا کر معاشرے کے لیے سود مند فرد بنیں - اے کاش! ہمارے پورے ملک سے بالخصوص ہماری قوم سے کسی ایک غریب کے رونے کی ویڈیو نیوز چینلز پر نظر نہ آئے، بھوک سے نڈھال کسی مفلس کی سر عام عزت نفس مجروح نہ ہو، دوائیوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی مریض مرتا ہوا نظر نہ آئ
0 تبصرے