تحریر:شاہ خالد مصباحی سدھارتھ نگری
خالق دوجہاں نے جہاں مخلوقوں کی صورت و سیرت کی اساس اک عدیم النظر طرز پر رکھی ہے --- وہیں پر مصائب و آلام، مدح و سرور کو بھی زندگی کے گنجلک راستوں پر ہمارے کارناموں اور معاملات کے زریعہ طے کردیا ہے ---- جس کی واضح تصدیق کو اپنے کلام "مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ " کے زریعہ خاص کر رکھی ہے -
اور اسی پر "مااصابتكم من مصيبة فمن نفسك " ما اصابتكم مصيبة فمن انفسكم اور ما اصاب من مصيبة فبما كسبت أيديكم "جیسی آیتوں کے ذریعہ تنبیھات کی خوب بارش فرمائی ---
لیکن عقل مخمور کو #سونجھےگاکہاں!
اس امت کو تو ظلمت کے رستوں سے سنبھلنے اور خود کو خداوند کے راستوں سے جوڑنے کا اک ایسا حسین گلدستہ عطا ہوا تھا جس نے ہر آ چکی مصیبت اور آنے والی پریشانیوں کے اسباب کی بھی وضاحت فرما دی تھی _-------
اور یہیں تک نہیں بلکہ عیش و عشرت، بادہ اور پاجی پرستی اور کارہائے زنادیق کو اپنی حیات کے فہرست مقدمات میں رکھ کر عالم پر اس کی حقیقتوں کو عیاں کر دیا تھا ___
لیکن #کارہائےغافل خود را ترد برد!
اک نظر دور کریں! اور دوڑائیں اپنے حواس کے گھوڑوں کو اپنی خو د مختاری ، اور ظلم و جبر کے وقت چھائی سنناٹے کی طرف --- یہی وہ زمین اور اسی پر بسنے والے وہ ناطقہ ہیں جو کچھ تو صاحب حیات ہیں اور کچھ تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے!!!!
#یادکریں! اس شمع کے پروانوں کو جس نے ہمارے ہی آنکھوں کے سامنے روانڈا، بلیجیم کی فوجوں کے تشدد کی بنا پر اپنا دم توڑا ہے کہ ۔۔۔۔ سنہ 1994 ' اپریل سے جون تک محض 90 دنوں کے اندر آٹھ لاکھ سے زیادہ توتسی اور اعتدال پسندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ اور جو دنیا کی تاریخ میں تین مہینے کے اندر اتنی بڑی نسل کشی کی وہ صورت اختیار کرلی جو شاید ہی پہلے کبھی رونما ہوئی ہو۔
#قارئین! میں تسلیم کرتا ہوں کہ بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے خانہ جنگی تو ختم ہو گئی تھی ۔
لیکن افسوس! نفرتوں نے وہ بیج ڈالا کہ آنے والے برسوں میں دونوں جانب سے لاکھوں افراد مارے گئے اور تاہم دنیا خاموش تماشائی بنی رہی_------------------
اور اس گزرے پچاس سالوں میں دم توڑتی ہوئی انسانیت کے عالم میں اس طرح صرف اک ہی کیس نہیں بلکہ ہزارہاں مقدمات پیش نظر ہیں _-------
آئیے دیکھتے چلیں کہ حالیہ برسوں ہی میں ہماری نظروں کے سامنے کس طرح مظلوموں اور منصفوں کا خون بہایا گیا -- اور ہم صرف ٹی وی کے اسکرینوں پر نظریں گڑانے کے سوا اپنی رحم دلی، ہمدردی ، اور انسانیت کو ثابت نہ کر سکیں ---
آخر ہمارے ہی سامنے عراق، شام، فلسطین، یمن اور لیبیا میں لاکھوں انسانوں کا خون کیا گیا ،، عورتیں اور بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں ----- ہزاروں معصوم بچے بھوک اور پیاس کے سبب دم توڑ بیٹھے ،،، اور لاکھوں افراد بے گھر اور بے وطن ہو کر کھلے آسماں کے سایے تلے آج بھی زندگی #بس___ر کر رہے ہیں ۔ یعنی گزشتہ پچاس سالوں کے اندر ان ممالک میں اتنی بڑی تباہی ہوئی ہے کہ انھیں صرف سنبھلنے میں نہ جانے کتنی نسلیں گزر جائیں گیں ۔__-------' لیکن اس گھٹا ٹوپ عالم درندگی میں بھی ہم بہتے ہوئے خون مظلوں پر اک جملہ بھی بولنا گوارا نہیں کیے
#اورگھر بیٹھ کر ہی انسانی دنیا کی انسانیت کو بھول بیٹھے تھے ۔ جس کے نتیجے میں آج پورا عالم درد و کرب سے کراہ رہا ہے --- #ہرکوئی پریشان نظر آرہا ہے ------
انسانیت ماری ماری پھر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور #جان لیں انہی معصوموں کی آہ وفغاں ہی سے آج سب کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی ہے _----
اور ایسے ہی جب ظلم ڈھایا گیا تھا
برما ، روہنگیا کے لوگوں پر ان کی شہریت کے مسئلہ کو لے کر جب ان کو ہی انہی کی سرزمین سے بھاگایا جا رہا تھا----
اور انھیں ان کے علاقوں میں پناہ گزین کیمپ جیسی زندگی گزارنی پڑیں ۔ اور حتی کہ انہیں تعلیم، صحت، زمین کی ملکیت اور ہر طرح کے حقوق سے محروم رکھا گیا --- اور یہاں تک کہ آج بھی کسی کو برما کے رخائن خطے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
اسی طرح تہذیب و ثقافت جیسی اعلی خصوصیت کے حامل کی بنا پر امن و سکون کا گہوارہ کہے جانے والے ملک وطن عزیز ، انڈیا میں بھی ریاست آسام میں بسنے والے افراد کی شہریت کو لےکر جو ظلم و ستم کا پہاڑ ڈھایا گیا اور معصوموں پر جو زیادتیاں ہوئیں یقینا وہ اک رحم دل انسان کےلیے نا قابل دید تھا اور چھوٹے دل کے مالک قلمکاروں کے لیے نا قابل بیان ہے
لیکن صد حیف! ہمارے ملک کی میڈیا اس ابھرتے ہوئے ممکنہ انسانی بحران پر پوری طرح خاموش رہیں ۔
اور اب وہ وقت یاد آرہا ہے جب انسانی بحرانوں، جنگ اور مظالم کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے اور احتجاج ہوتے تھے۔ لوگ اپنے ضمیر اور انسانی جذبوں کی بنیاد پر اپنی آواز اٹھاتے تھے۔
لیکن آج انسان اور انسانیت دونوں بحران کی گرفت میں ہے
اللہ جملہ مخلوقوں کی حفاظت فرما کر انسانیت کو بحال کردے
0 تبصرے