تحریر: محمد حسین
اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی بخشی اور اشرف المخلوقات بنا کر ایمان جیسی دولت سے مالا مال کیا۔ اور اپنا خاص کرم فرما کر رمضان المبارک جیسا مقدس رحمت و مغفرت والا مہینہ عطاء کیا۔۔
رمضان المبارک کا مہینہ یقینا بڑا ہی برکتو ں والا مہینہ ہے اس مبا رک ماہ میں ایک نیکی کا ثواب ستر گنا ہو جاتا ہے۔اس مبارک ماہ میں روزےکو فرض قرار دیا گیاہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
"اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ" (البقرة، 2 : 183)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ "جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں" (بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من اليمان، 1 : 22، رقم : 38) روزے کی افضلیت اسی حدیث سے لگانا کافی ہوگا،
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین کو بند کردیا جاتا ہے اور مضبوط باندھ دیا جاتا ہے اور سرکش جنوں کو بھی بند کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس کا کوئی بھی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے نیکی کے طالب آگے بڑھ کہ نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کے چاہنے والے بدی سے رک جا اور اپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ کیونکہ یہ وقت گناہوں سے توبہ کرنے اور ان کو چھوڑنے کا ہے۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اﷲ عنہ سے رویت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے جس کو ’’باب الریان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اﷲ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے،جب وہ روزہ دار اس دروازے سے جنت میں پہنچ جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا، پھر کسی کا اس سے داخلہ نہیں ہو سکے گا۔‘‘ ریان کے لغوی معنی ہیں ’’پورا پورا سیراب‘‘ یہ بھرپور سیرابی تو اس روزہ دار کی صفت ہے جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا۔آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے انعامات ان پر ہوں گے ان کا علم تو بس اﷲ تعالیٰ کو ہی ہے۔
رمصان المبارک کے مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا عشرہ (یعنی ایک سے دس روزے تک)رحمت والا ہوتا ہے اور دوسرا عشرہ (یعنی گیارہ سے بیس تک) مغفرت کا عشرہ ہوتا ہے اور تیسرا عشرا (یعنی اکیس سے تیس تک) جہنم سے آزادی کا عشرہ ہوتا ہے۔ اور ان تینوں عشروں میں اللہ رب العزت کا اپنے مومن بندوں پر خا ص کرم ہوتا ہے
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدم کے بیٹے کا نیک عمل کا اجر جتنا اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستشنی ہے‘ کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔ اور میں بھی اس کی جزا دوں گا۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بعض اعمال کا ثواب صدق نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے‘ لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی مقدار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
اس مبارک ماہ کا پہلا عشرہ تو ہماری نگاہو سے اوجھل ہو گیا اور دوسرا عشرہ گزر رہا ہے۔یہ عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے ۔
مغفرت کے تعلق سے قر آن میں متعدد آیتیں نازل ہویئ ہیں ۔
(الاعراف:23) "اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنى جانوں پر ظلم کىا اور اگر تو نے ہمىں معاف نہ کىا اور ہم پر رحم نہ کىا تو ىقىناً ہم گھاٹا کھانے والوں مىں سے ہوجائىں گے"۔
(المؤمنون:109)
"اے ہمارے ربّ! مجھے بخشش دے اور مىرے والدىن کو بھى اور مومنوں کو بھى جس دن حساب برپا ہوگا"۔
"اے ہمارے ربّ! ہم اىمان لے آئے پس ہمىں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے"
اگر کوئی مسلمان عشرہ ثانیہ میں اپنے پچھلے تمام کبیرہ گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کے صغیرہ گناہ روزے کی برکت سے معاف فرمادیے جاتے ہیں اور وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنم دیا ہو۔ بلاشبہ جس کسی کو اﷲ تعالیٰ کی مغفرت مل گئی اسے سب کچھ مل گیا۔ حق تعالیٰ شانہ تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کابہاناڈھونڈتا ہے۔ جب کسی بندے سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اسے مہلت دی جاتی ہے کہ شاید اب بھی یہ معافی مانگ لے، شاید اب بھی یہ میری طرف رجوع کرلے۔حدیث مبارکہ ہے کہ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو آسمان اﷲ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے’’اے اﷲ! تو مجھے اجازت دے کہ میں اس پر ٹوٹ پڑوں۔‘‘ زمین کہتی ہے’’اے اﷲ، تو مجھے اجازت دے کہ میں اسے اپنے اندر دھنسالوں۔‘‘
اس موقع پر مالک الملک کا ارشاد ہوتا ہے’’اگر یہ تمہاری مخلوق ہے اور تم اس کے خالق ہو تو تمہیں اجازت ہے۔ اور اگر یہ میرے بندے ہیں اور میں ان کا خالق ہوں تو میرے بندے کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو، میں اس بات کا انتظار کروں گا کہ یہ مجھ سے رجوع کرلے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے‘‘۔حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن کہے گا کہ ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی‘‘ ( مشکوٰۃ)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسری مظلوم کی ‘‘۔
لہذا اس عشرہ میں ہم لوگو ں کو صدق دل سے توبہ کرنا چاہئے اور اللہ سے دعا کرنا چاہئے کہ اللہ رب العزت اپنے حبیب کے صدقے و طفیل ہما رے گناہوں کو معاف فرمائے. آمین
0 تبصرے