Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ماہِ رمضان المبارک اور روزے کی حکمتیں

تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
اسلامی تقویم کے اعتبار سے نواں مہینہ بڑی سعادت وبرکت اور عظمت وفضیلت کا حامل ہے اسے مہینوں کا سردار رمضان المبارک کہا جاتا ہے قرآن کی زبان میں اس ماہ مقدس کی سب سے بڑی سعادت مندی یہ ہے کہ اسی ماہ مقدس میں قرآن پاک نازل کیا گیا اور اسی مہینے کی ایک رات کو لیلۃ القدر کہا گیا ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر و افضل قرار دی گئی ہے یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کے رات اور دن دونوں فضیلت والے ہیں. اور یہ بات بھی محتاج وضاحت نہیں کہ ارکان اسلام میں روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے. 
 *روزے کی فرضیت* قرآن حکیم میں اللہ رب العزت روزے کی فرضیت کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے:یٰآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَّلَکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة‘ 2: 183)اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
اس آیہ کریمہ میں دو باتوں کی صراحت بیان کی گئی ہیں (1)روزے صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی نہیں بلکہ اممِ سابقہ پر بھی فرض کئے گئے تھے (2) روزے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔
 *روزہ کس سن میں فرض ہوا* ثقہ روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعد شعبان کے مہینے میں ہوا۔ آیت روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی، جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے باری تعالی نے اہل ایمان سے ارشاد فرمایا:فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ.(البقرة‘ 2: 185) پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اسکے روزے ضرور رکھے۔
اس آیہ مبارکہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہر اس صاحبِ ایمان کو دیا گیا ہے، جو اپنی زندگی میں اس ماہ مقدس کو پا لے۔امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے یہود و نصاریٰ دس محرم الحرام (عاشورہ) کا روزہ باہتمام رکھتے تھے۔ اسی طرح ہر قمری مہینے کی تیرھویں چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے تین دن جنہیں ایام بیض سے موسوم کیا جاتا ہے کے روزے پہلے کی امتیں بڑے اہتمام کے ساتھ رکھا کرتی تھیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد ان روزوں کی حیثیت بریں بنا سنت کا درجہ اختیار کر گئی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشورہ اور ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول مدت العمر قائم رہا۔ روزے کی فرضیت کا منکر کافر اور اسکا تارک گنہگار ہے۔آیت مبارکہ میں دوسری چیز جو بیان کی گئی ہے وہ روزے کا مقصد ہے جو کہ تقویٰ ہے یعنی روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کرتا تو پھر انسان نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا
 *رمضان کی لغوی تشریح* (1) رمضان ، رمض سے مشتق ہے جس کے معنی گرمی یا جلانے کے ہیں۔ رمضان میں روزہ رکھ کر انسان اپنے نفس کو اور اس کی خواہشات وترغیبات کوجلادیتا ہے
 (2)رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔
 *رمضان کے پانچ حروف* :ر … م … ض … ۱ … ن..., ر سے رضائے الٰہی پانے کا مہینہ ، م سے مغفرت طلب کرنے کا مہینہ ، ض سے ضمانت، ﷲ کی جانب سے بندوں کو شیطان کے وسوسے اور اس کی ترغیبات سے نجات کی ضمانت ، ا ، سے احسان و انعام، اس ماہ مقدس میں بندوں پر ﷲ کے اتنے احسانات وانعامات ہوتے ہیں کے ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ن ، سے نور ، ﷲ پاک رمضان المبارک میں روزے دار کے چہروں کو نورانی بنادیتا ہے ۔
 *لفظ صوم کی لغوی تشریح* : عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس لغوی معنی رک جانا ہے یعنی بندہ نفسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔
 *تنبیہ* روزہ کا اصل مقصد چونکہ تقویٰ کا حصول اور گناہوں سے اجتناب ہے لہٰذا جو شخص روزہ رکھ کر بھی گناہوں سے نہ بچے تو ایسے شخص کے بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہوپائے گا، جیساکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
 *حدیث مبارکہ* مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ۔ (بخاری شریف۱؍۲۵۵، مشکوٰۃ شریف ۱؍۱۷۶)
 *ترجمہ*: جو شخص (روزہ میں) جھوٹی بات اور ناجائز کلام کرنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کواس شخص کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہر روزہ دار روزہ رکھ کر گناہ سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرے، اور اگر کوئی دوسرا شخص اسے گناہ پرآمادہ بھی کرناچاہے تو صبر وہمت سے کام لے کر اس سے بچنے کا اہتمام کرے۔
 *رمضان میں اجر* :رمضان شریف ﷲ کا پسندیدہ مہینہ ہے.عبادت وریاضت کی بہار کا مہینہ ہے اس مبارک مہینے میں ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر خاص توجہ فرماتا ہے اس ماہ مقدس میں ہر نفلی عبادت کا ثواب فرض کے برابر کردیتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیتا ہے.
 *حدیث مبارکہ* : حدیث شریف میں آیا ہےکہ روزہ رکھنا ، سحری کھانا ، افطاری کرنا ، تراویح اور پنچ وقتہ نماز پڑھنا ، صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا ، گناہوں اور برائیوں سے بچنا سب کے سب مغفرت اور بخشش کے وسیلے ہیں ۔ ہرروز ﷲ تعالیٰ اس مبارک مہینے میں ہزارو ہزار گناہگاروں کو عذاب سے نجات دیتا ہے اور نیک کام کرنے والوں کو بے شمار ثواب سے نوازتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Comments