تحریر: ظفر احمد خان
ہندوستان میں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے جبر و تشدد، نفرت اور حکومت کے ذریعہ ان کے تئیں دوہرا معیار اپنانے جانے پر بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار جاری ہے، اور ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے، پہلے خلیجی ممالک اور اب عالمی سطح پر آزادی مذہب پر نظر رکھنے والی امریکی کمیشن یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم (USCIRF) نے محکمہ خارجہ سے چودہ ممالک سمیت ہندوستان کو ‘خصوصی تشویش والے ممالک’(سی پی سی)کے طور پردرج کرنے کو کہا اور الزام لگایا کہ ان ممالک میں مذہبی اقلیتوں پر حملے بڑھتے جا رہے ہیں، امریکی کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق 2019 کی رپورٹ میں بھارت مذہبی آزادی کے نقشے میں تیزی سے نیچے آیا، رپورٹ میں شہریت ترمیمی قانون پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2019 میں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا، رپورٹ میں بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی تنقید کے ساتھ ساتھ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر نے پر ہندوستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، اور اگر ٹرمپ حکومت نے کمیشن کی سفارشات کو تسلیم کر لیا توحکومت کے لئے کئی قسم کی مشکلات کھڑی ہو جانے کا خطرہ ہے، اس کے خلاف بہت سی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر ان کی ساکھ خراب ہونے کا اندیشہ ہے.
خاص تشویش والے ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا نام ڈالنے کی امریکا کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کی سفارش کو حکومت ہند نے مسترد کرتے ہوئے کمشین کے بیان کو جانبدار او غیر شفاف قرار دیا ہے، حالانکہ حکومت حقائق کو نہیں چھپا سکتی، عالمی خبر رساں اداروں کی طرف سے منظر عام پر آنے والے ویڈیو مناظر اس بات کے غماز ہیں کہ یہ ظلم مسلمانوں پر جبراً کیا گیا ہے۔
کمیشن کی سفارشات پر حکومت کا یہ رد عمل غیر متوقع نہیں ہے، عوامی سطح پر وہ اس کو قبول نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ سفارت ان کے خلاف ہیں وہیں اس سے حکومت اور ملک دونوں کی شبیہ خراب ہونے کا خدشہ ہے، حالانکہ اسی امریکہ کی ٹائم میگزین نے سنہ 2016 میں جب وزیر اعظم نریندر مودی کو پرسن آف دی ایئر قرار دیا تھا، وہ پہلے نمبر پر تھے جبکہ امریکی صدر براک اوباما دوسرے نمبر پر آئے تھے، اس وقت بہت خوش و خرم نظر آ رہے تھے اور مودی کو ساری دنیا میں عالمی لیڈر کے طور پر جبکہ ہندوستان کو وشو گرو کے طور پر پیش کرتے نہی تھکتے تھے، لیکن اسی ٹائم میگزین نے وزیراعظم نریندر مودی کوجب "انڈیاز ڈیوائیڈر اِن چیف" یعنی ہندوستان کو تقسیم کرنے والااہم شخص قرار دیا تو حکومت نے مضمون نگار آتش تاثیر کی بطور ’بیرون ملک مقیم انڈین‘ شہریت منسوخ کر دی تھی ،
حکومت نے کمیشن کی سفارشات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جانب دار قرار تو دے دیا، کیا لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گذشتہ دنوں ملک میں مآب لنچنگ کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں، کہیں گؤرکشا کے نام پر، تو کہیں ہندتو کی حفاظت کے نام پر،اور کہیں بچہ چوری کے نام پر تو کہیں لو جہاد کے نام پر اس کے شکار ہوئے ہیں، ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی اس مآب لنچنگ کے شکار ہوئے ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ یہاں کے دیگر باشندگان بھی اس کے شکار ہوئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی شکار ہوئی ہے،
حال ہی میں دہلی کے مدن موہن مالویہ ہسپتال نے کچھ مسلم خواتین کاعلاج کرنے سے یہ کہہ کرانکار کردیاکہ تم مسلمان ہو جماعت میں جاتے ہو اس لئے ہم تمہارا علاج نہیں کریں گے، ملت ٹائمز کے مطابق یہ واقعہ گذشتہ ایک ہفتہ قبل دہلی کے سرکاری ہسپتال مدن موہن مالویہ میں پیش آیاہے، خانپور کی رہنے والی زینب نے ملت ٹائمز سے فون پر بات کرتے ہوئے کہاکہ موہن مالویہ ہسپتال میں میرا علاج چل رہاہے، ان دنوں میں حمل سے ہوں اور ہر تین ہفتہ پر بلایاجاتاہے، جمعرات 15اپریل کو وہاں گئی ، ریشپسن سے میری پرچی بھی کٹ گئی اور میں لائن میں لگ گئی ۔ نمبر آنے کے بعد جب ڈاکٹر کے چیمبر میں گئی تو وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں اور میں نے برقع پہن رکھاتھا ۔ ڈاکٹر نے مجھے دیکھتے ہی کہاوہیں رک جاﺅ ۔ تم لوگ جماعت میں جاتے ہو اور کرونا پھیلاتے ہو۔ میں نے کہاکہ میں جماعت میں نہیں جاتی ہوں اور نہ میرے گھر میں کوئی جاتاہے، ڈاکٹر نے کہاکہ تم لوگ جاﺅ تمہارا علاج نہیں ہوگا، ہم تمہیں نہیں دیکھیں گے ۔ زینب نے بتایاکہ اس نے درخواست کی کہ دوا کم ازکم لکھ دیجئے لیکن اس سے بھی انکار کردیا، زینب کے مطابق وہاں اور بھی کئی مسلم خواتین تھیں جن کا علاج کرنے سے ڈاکٹر نے یہی سب کہتے ہوئے صاف انکا ر کردیا.
دیوریا کے برہج اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے سریش تیواری کے اس تبصرہ سے کون ناواقف ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں سنا جا رہا ہے، جس میں کچھ سرکاری حکام کے ساتھ وہ کچھ لوگوں سے کہہ رہے ہیں،‘ایک بات ذہن میں بٹھا لو، میں سبھی کو کھلے طور پر بتا رہا ہوں، کوئی بھی مسلمانوں سے سبزیاں نہ خریدیں، اور بی جے پی کے ایک دوسرے ایم ایل اے کے ذریعہ سوسائٹی سے مسلم سبزی فروش کو بھگانے اور دھمکی دینے کا معاملہ کس سے مخفی ہے، واضح ہو کہ لکھنؤ کے گومتی نگر میں اپنی رہائشی کالونی میں میں ٹھیلے پر سبزی ترکاری فروخت کرنے والے شخص سے مہوبہ ضلع کے چارہ کھاری اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے ایم ایل اے برج بھوشن اور سوسائٹی کے دیگر افراد نام پوچھتے ہیں، سہمے ہوئے سبزی فروش کے ذریعے اپنا نام ’راج کمار ‘ بتانے پر اس پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، اسے مارنے پیٹنے اور سوسائٹی سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ اپنی حرکت کو جائز ٹھہراتے ہوئے بی جے پی لیڈر راجپوت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سبزی فروش مسلمان تھا مگر ہندوبن کر سبزی بیچ رہا تھا، اس سے قبل کیتھل اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ممبر اسمبلی ليلا رام گوجر نے ایک مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آج یہ جواہر لال نہرو کا ہندوستان نہیں ہے، آج یہ گاندھی والا ہندوستان نہیں ہے، اب یہ ہندوستان نریندر مودی جی کا ہے، اگر اشارہ ہو گیا نا، تو ایک گھنٹے میں شہریت قانون کی مخالفت کرنے والے کا صفایا کر دیں گے‘‘۔
دہلی انتخابات کے دوران مودی حکومت میں وزیر انوراگ ٹھاکر نے تو اشاروں اشاروں میں غدار بتاکر گولی مارنے کے نعرے بھی لگوائے، اور دہلی سے بی جے پی ممبر آف پارلیمنٹ پرویش ورما نے تو اور آگے جاکریہاں تک کہہ دیا کہ شاہین باغ کے لوگ دہلی میں لوگوں کے گھروں میں گھسکرریپ کریںگے، ان سے بچنا ہے تو بی جے پی کو ووٹ کرو۔ اس کے علاوہ، انہوں نےسرکاری زمین پر بنی تمام مساجد کو توڑنے کا اعلان بھی کر دیا، ووٹوں کے پولرائزیشن میں سب سے آگے رہنے والے اتر پردیش کےوزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے اپنا پرانا راگ الاپا کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی تو شاہین باغ والوں کو بریانی کھلا رہے ہیں مگر ہم پہلے ہم بولی سے سمجھاتے ہیں اور نہیں مانے توپھر ان کو ہماری پولیس گولی سے سمجھاتی ہے،
کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور رکن اسمبلی رینوکاچاریہ نے شہریت قانون کی حمایت میں بلائی گئی ریلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "وہ لوگ مسجد میں نماز پڑھنے کی جگہ ہتھیار اکھٹا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہاں کچھ غدار وطن ہیں، تم لوگ مسجد میں بیٹھتے ہو اور فتوے لکھتے ہو؟ مسجد میں کیا ہے؟ وہاں پر ہتھیار اکھٹا کئے جاتے ہیں۔ کیا اس لئے مسجد چاہتے ہو؟ اگر تمہیں ایسا ہی کرنا ہے تو ٹھیک ہے، میں اپنی سیاست کرتا رہوں گا"۔ یہ بھی کہا کہ "میں مسلمانوں کے لئے مختص بجٹ کا استعمال ہندوؤں کے کام کے لئے خرچ کرنے سے بالکل نہیں تردد کروں گا".
مذکورہ بالا اور ان جیسے دوسرے واقعات میں مناسب کارروائی نہ کرنے اور جانبداری سے کام لینے کی وجہ سے جہاں ملک کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، وہیں شر پسندوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں، اور یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان کے اندر اتنی نفرت کہاں سے آتی ہے اور اس نفرت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حوصلہ کہاں سے آتا ہے؟ ظاہر ہے ان کی پشت پناہی کرنے وال کوئی نہ کوئی عناصر ضرور ہیں؟ تو کیا بین الاقوامی سطح پر آواز بلند ہونے کے بعد بھی انھیں ملک کی بدنامی کا بھی کوئی ڈر نہیں رہا ہے، کیا اب اس بات کا احساس بھی ان کے دلوں میں نہیں رہا کہ اس طرح کے حادثات سے ہمارے ملک کی شبیہ دنیا بھر میں خراب ہو رہی ہے؟
اب اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی صاحب کیا یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے لیے کون سا انڈیا جنت کی طرح ہے جہاں ان کے حقوق محفوظ ہیں؟ اور سیکیولرزم اور بھائی چارا، کس انڈیا اور کون سے انڈین شہریوں کے لیے (پولیٹِکل فیشن) سیاسی فیشن نہیں بلکہ پرفیکٹ پیشن (جنون) ہے؟" اور وزیراعظم نریندر مودی نےاسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور خلیجی ممالک کے کچھ دانشوروں و صحافیوں کے ذریعے ملک میں اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف ماحول پر سنگین تشویش کے اظہار کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بالکل درست کہا تھا، "کووڈ 19 کسی پر حملہ کرتے وقت اس کی نسل، مذہب، رنگ، ذات، زبان اور اس کی سرحد نہیں دیکھتا"، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے اس مسلم مخالف پروپیگنٖڈے کی حوصلہ افزائی اور ٹی وی چینلز کے ذریعے اسے مزید تقویت دئیے جانے کی تحریک نے ملک کی عوام کے درمیان خلیج کو مزید بڑھانے اور ملک کی شبیہ خراب کرنے کا کام نہیں کیا ہے؟ کیا کرونا کے بہانے مسلمانوں کو بدنام کرنے والی میڈیا اس کی ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا ملک میں اس طرح کی فضا نہیں بنائی گئی کہ کورونا صرف مسلمانوں کی وجہ سے پھیل رہا ہے؟ کیا سیاسی لیڈروں اور مختلف چینلز نے ایسا ماحول نہیں بنایا کہ مسلمانوں کا اس وائرس کو پھیلانے کا مقصد ہندوؤں کو مارنا ہے؟ سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف پوسٹیں لگا کر ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے والے کیا ملک کی شبیہ خراب کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا کرونا کے بہانے مسلمانوں کو جیلوں اور کورنٹائن مراکز میں منتقل نہیں کیا جا رہا ہے؟ پولیس زبردستی کرونا کا مریض بنا کر جیلوں میں نہیں لے جار ہی ہے؟ کیا خبر رساں اداروں نے تبلیغی جماعت اور دیگر مسلمانوں پر 'کرونا جہاد' کا الزام عائد نہیں کیا؟ کیا میڈیا اور سوشل میڈیا پر منفی ایجنڈے کے علمبرداروں نے نہیں کہا تھا کہ نئی دہلی میں نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں مسلمان ملک میں کرونا پھیلانے کی سازش کے تحت اکٹھا ہوئے تھے؟ کیا یہ کسی سے پوشیدہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے لیے تبلیغی جماعت کو تو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے؟ اور یہ کون نہیں جانتا خود حکومت، سیاسی جماعتوں اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کے سلسلے میں عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟ کیا کچھ مقامات پر یومیہ مزدوروں میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرنے والے مسلمانوں پر حملے نہیں کئے گئے؟ کوروناجیسی وبا کے دوران بھی پرامن سی اے اے، این آر سی کے مظاہروں کے تناظر میں گذشتہ چند دنوں میں دہلی میں سیکڑوں نوجوانوں طلبہ لیڈروں اور سماجی کارکنان کی گرفتاریوں کو کیا دنیا نے نہیں دیکھا؟
مذکورہ بالا واقعات، افراد اور لیڈروں کے بیانات کی نشاندہی کے بعد یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے اور اس کی ساخت کو گرانے کا ذمہ دار کون ہے؟ لہذا حکومت کو چاہیے کہ ایسے افراد اور لیڈروں کی نفرت انگیزی پر صرف ٹویٹ کا لالی پاپ نہ دے کر ان کے خلاف سخت اور فوری کاروائی کی جائے تاکہ ملک میں امن وامان بحال ہو، ہر ہندوستانی شہری امن و سکون سے جی سکے، ہمارے وزیراعظم حقیقت میں ایک عالمی لیڈر بن کر سامنے آئیں اور سچ مچ ہندوستان وشو گرو بن سکے۔
0 تبصرے