Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

امام کے پیچھے مقتدی قرأت نہ کرے

تحریر: ظفر کلیم امجدی
امام کے پیچھے مقتدی کو قرآن شریف پڑھنا سخت منع ہے۔ مگر غیر مقلد وہابی مقتدی پر
سوره قایہ پڑھنا فرض جانتے ہیں۔ اس ممانعت پر قرآن کریم احادیث شریف اقوال صحاب
کبار عقلی دلائل بے شمار ہیں۔ لہذا ہم اس باب کی دوفصلیں کرتے ہیں۔ پہلی فصل میں اس
ممانعت کا ثبوت اور دوسری فصل میں اس پر سوالات مع جوابات رب تعالی قبول فرمائے۔

(پہلی فصل) 

امام کے پیچھے مقتدی کوقرآن کی تلاوت کرنا منع ہے۔ خاموش رہنا ضروری ہے۔ دلائل
ملاحظہ ہوں ۔قرآن شریف فرماتا ہے۔

(وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
ترجمہ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

خیال رہے کہ شروع اسلام میں نماز میں دنیاوی بات چیت بھی جائز تھی - اور مقتدی قرأت بھی کرتے تھے بات چیت تو اس آیت سے منسوخ ہوئی
(وقومو اللہ قنتین) اور کھڑے ہو اللہ کیلئے اطاعت کرتے ہوئے خاموش

چنانچہ مسلم نے باب تحریم الکلام فی الصلوۃ اور بخاری باب ماینھی من الکلام فی الصلوۃ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی

قال كانانتكلم في الصلوۃ یکلم
الرجل صاحبه وهو إلى جنبه
في الصلوۃ حتى نزلت و قوموا -
للہ قنتین. فامرنا بالسکوت و
نهينا عن الكلام (لفظ مسلم)
ترجمہ ہم لوگ نماز میں باتیں کرتے تھے ہر ایک اپنے ساتھی سے نماز کی حالت میں گفتگو کر لیتا تھا؛ یہاں تک کہ یہ آیت اتری وقومو اللہ الخ پس ہم کو حکم دیا گیا خاموش رہنے کا اور کلام سے منع فرمادیا گیا-
پھر نماز میں کلام تو منع ہوگیا مگر تلاوت قرآن مقتدی کرتے تھے  جب یہ آیت اتری تو مقتدیوں کو تلاوت بھی ممنوع ہو گئی
)وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا الخ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو
چنانچہ تفسیر مدارک شریف میں اسی آیت واذا قرئ کی تفسیر میں ہے

وجمهور الصحابة على انه في استماع المؤتم عام صحابہ کرام کا فرمان یہ ہے کہ یا آیت مقتدی کے قرأت امام سننے کے متعلق ہے۔
تفسیر خازن میں اس آیت و إذا قری کی تفسیر میں ایک روایت یہ نقل فرمائی۔

وعن ابن مسعود إنه سيع ناسا
يقرؤن مع الإمام فلما انصرف
قال أما ان لکم ان تفقھو و اذا
قرئ القرآن الخ
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بعض لوگوں کو امام کے ساتھ قرآن پڑھتے سنا جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی تک یہ وقت نہ آیا کہ تم اس آیت کو سمجھو )وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ الخ

مقیاس من تفسير ابن عباس شریف میں اسی آیت کی تفسیر میں ہے

وإذا قرئ القران في الصلوۃ المکتؤبة فاستمعؤا لہ الی قرائته وانصتؤا لقراءتہ
 جب فرض نماز میں قرآن پرھا جائے تو اس کی قراءت کو کان لگا کر سنو اور قرآن پڑھے جاتے وقت خاموش رہو
ہماری اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اول اسلام میں امام کے پیچھے مقتدی قرأت کرتے تھے اس آیت مذکورہ کے نزول کے بعد امام کے پیچھے قرأت منسوخ ہوگئی اب احادیث ملاحظہ ہوں -
(حدیث نمبر 1)مسلم شریف باب سجود التلاوۃ میں عطاء ابن یسار سے مروی ہے

أنه سأل زید ابن ثابت عن -
القرأۃمع الإمام فقال لا قراءۃ -
مع الإمام في
 شي انہوں نے حضرت زیدابن ثابت رضی اللہ عنہ صحابی سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ قرأت جائز نہیں 
(حدیث نمبر2) :-مسلم شریف باب التشہد میں ہے
فقال له ابوبکر فحديث اَبی 
هريرة فقال هو صحيح يعنی و
إذا قرأفأنصتوا
ابوبکر نے سلیمان سے پوچھا کہ ابو ہریرہ کی حدیث کیسی ہے تو آپ نے فرمایا کہ بلکل صحیح ہے یعنی یہ حدیث کہ جب امام قرأت کرے تو خاموش رہو بالکل صحیح ہے
(حدیث نمبر 3) ترمذی شریف نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی-
من صِليّٰ ركعةً لم يقرأ فيها بام
القرآن فلم يصل إلا ان يكون
وراء الإمام هذا حدیث حسن صحیح
جو کوئی نماز پڑھے کہ اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس نے نماز ہی نہ پڑھی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو یعنی تب نہ پڑھے) یہ حدیث حسن صحیح ہے
(حدیث نمبر 4) :_نسائی شریف میں ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی
 قال رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم إنما جعل الإمام ليؤتم به
فإذا كبر فکبرؤا وإذا قراء
فانصتؤا
حضور نے فرمایا کہ امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تم خاموش رہو
ہم حدیث نمبر 2 میں مسلم شریف کےحوالے سے بیان کر چکے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح ہے
(حدیث نمبر 5) :-طحاوی شریف نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی

أن النبى صلى الله عليه وسلم قال من
كان له إمام فقراءۃ الإمام له قرأة
جس کا کوئی امام ہو تو امام کی تلاوت اس کی تلاوت
(حدیث نمبر 6تا 10) :- امام محمد نے مؤطا شریف میں امام ابوحنیفہ عن موسی ابن ابی عائشہ عن عبد اللہ ابن شرادعن جابر ابن عبداللہ ہے۔
أن النبي صلي الله عليه وسلم قال من
كان له إمام فقرأة الإمام له قراءة
قال محمد ابن منیع و إبن الهمام
هذا الإسناد صحيح على شرط
الشيخينحضور نے فرمایا کہ جس کا امام ہو تو امام کی تلاوت اس کی تلاوت ہے محمد ابن منیع اور امام ابن ہمام نے فرمایا کہ یہ اسناد صحیح ہے اور مسلم بخاری کی شرط پر ہے
یہ حدیث امام احمد، ابن ماجہ، دارقطنی، بیہقی نے بھی روایت کی- صحیح البہاری
جاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Comments