Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

آئیے! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کریں

تحریر: صدیقی محمد اویس
۱۲ ربیع الاول کے دن اللہ کے آخری، محبوب اور تمام انبیاء  میں افضل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی اور اسی دن  ۶۳ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرما لیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لئے سراپا رحمت ہیں ۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار و اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی سے اخلاص سے پیش آتے پھر چاہے وہ امیر ہو یا غریب، غلام ہو یا مالک، مومن  ہو یا کافر ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے جایا کرتے تھے تو عین اس وقت ایک کافر بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکا کرتی تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اف تک نہیں کہتے تھے یہ عمل مسلسل کئی دنوں تک چلتا رہا لیکن ایک دن اس عورت نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا نہیں پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا کہ وہ بوڑھی عورت مجھ پر روزانہ کوڑا پھینکتی تھی لیکن آج اسے کیا ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بوڑھی عورت کا حال دریافت کرنے اس کے گھر پہنچے  تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عورت ایک پلنگ پر لیٹی ہے اور شدید علالت میں مبتلا ہے۔ اسکے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے جو اسکی دیکھ بھال کر سکے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیمار بوڑھی عورت کی اچھی طرح عیادت کرتے ہیں اور نہایت ہی ہمدردی سے پیش آتے ہیں، اسی کردار و عمل صالح کا نتیجہ ہے کہ وہ عورت اسلام قبول کر لیتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ایسے سینکڑوں واقعات ملتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق و کردار کے معاملے میں ایک عظیم  شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بڑی سنت یہی تھی دعوت دین کا کام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں اسی کام کے لئے بھیجا گیا تھا اور آپ نے اس کام کو بہترین انداز میں انجام دیا۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب کوئی پیغمبر نہیں آئیں گے تو یہ کام ہمارے ذمہ ہے کہ ہم اللہ دین کو صحیح انداز میں لوگوں تک پہنچائیں جیسا کہ اسکا حق ہے۔ اور اللہ سبحان تعالی بھی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ 

_' پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ “ میں زمین میں ایک خلیفہ  بنانے والا ہوں ” انہوں نے عرض کیا “کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں ، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرےگا ؟  آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کےلیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں” فرمایا “میں جانتا ہوں ، جو کچھ تم نہیں جانتے '_ ( القرآن 2 :30 )

یعنی اللہ تعالی نے زمین پر ہمیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ ہم اللہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اپنے کردار و اخلاق، قول و عمل کے ذریعے برادران وطن کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔جس طریقے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدمت خلق کے ذریعے یا اپنے کردار کے ذریعے لوگوں تک اسلام پھیلاتے تھے بالکل اسی طرح ہمیں بھی اپنے اخلاق کے ذریعے یا لوگوں کی خدمت کے ذریعے اسلام کی دعوت کو عام کرنا ہے ۔

لیکن آج ہم اپنے اوپر غور کریں تو کیا ہم دعوت دین کے اس فریضہ کو انجام دے رہے ہیں؟ 

کیا ہمارا کردار اس قابل ہے کہ وہ اسلام کی نمائندگی کر سکے؟ 
نہیں، ہرگز نہیں

ابھی بھی وقت ہے ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عاشق رسول ہیں تو وہ محض زبانی نہیں ہو بلکہ ہمارے عمل سے جھلکے کہ ہم اپنے نبی سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں تو وہ صرف دھاوا بن کر نہ رہ جائے بلکہ ہم اپنے کردار و اخلاق کو اس مقام تک لے جائیں کہ لوگ ہمیں دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوں۔ اسکے علاوہ ہم قول کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی صحیح دعوت دیں اور اسلام کے متعلق انکی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ یعنی احسن قول اور عمل صالح کے ذریعے اسلام کی دعوت کو عام کریں ۔

تو آئیے۔۔۔۔ ہم بھی آج سے ہمیشہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور دعوت دین کے اس فریضہ کو صحیح انداز میں ادا کریں۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت دین کے اس فرض منصبی کو صحیح انداز میں انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Comments