Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

سنیئے سرکار! زمانے سے ناآشنائی اچھی نہیں

تحریر: ڈاکٹر محمد ساجد احمد
کوئی شک نہیں کہ آپ بی جے پی کو جانتے ہیں ،آر ۔ایس۔ ایس،وی ۔ایچ۔ پی ،وشو ہندو پریشد،سیمی ،تبلیغی  جماعت اور جماعت اسلامی  اور داعش جیسی تنظیموں سے متعارف ہوں گے ،اور ممکن ہے کہ ان کے محرکات و معاملات کو بھی جانتے ہوں ،اس پر مستزاد یہ کہ ان سے ملک وملت کے ہوئے نقصانات سے بہ خوبی واقف ہوں گے،جیسے ترقی کے اس دور میں آر ۔ایس ۔ایس کے محرکات پر ایک نظر ڈالیں تو یہ تحریک مذہب سناتن کے ماننے والے بچوں کو سیلف ڈیفینس کے نام پر جان لیوا حملے   کے حربوں کااستعمال،اپنے سے غیر مذاہب کے لوگوں سے نفرت اور رام سینا اور شیو سینا کے نام ایک متشدد ،دہشت گردی نظریہ کو پروان چڑھاتی ہے ،غور طلب امر یہ ہے کہ ان تنظیموں میں آپ کو بڑے بڑے بھگتوں کے لڑکے نہیں ملیں گے کیوں کہ وہ لندن ،امریکہ اور جاپان وغیرہ میں تعلیم حاصل کررہے ہوں گے ،وہ تعلیم حاصل کربھگتی کرتے اور آپ (قوم سناتن کی عوام )کی اولاد خنجر،چاقو،چھرا،تیر اندازی اور غیر قانونی ہتھیار  اٹھا کر دوسری قوم کے لوگوں کی جان لینے میں بھگتی کرتی ہیں ،اس پورے کھیل میں جاہل طبقہ شامل ہی ہے کبھی کبھی بعض پڑھے لکھے لوگ  بھی آجاتے لیکن ائی۔ ایس۔ سی ۔کے۔ او ۔این (آئیس کان ) آرگنائزیشن کا نام بالکل نیا معلوم ہوتا ہوگا ۔اس تنظیم کی بنیاد آچاریہ بھکتی ویدانت سوامی  پربھوباد نے ۱۳؍جولائی ۱۹۶۶ء  امریکہ کی جان ،معیشتِ امریکہ کے جگر شہر نیویارک میں رکھی ،اس تنظیم کی نوعیت میں بتایا جاتا ہے ک یہ ایک ”مذہبی تنظیم“ہے (ہندو دھرم)گوڑ ویشڑو دھرم کے علم بردار کہے جاتے کہے ۔خیر ،محل غور امر یہ ہے کہ ہمارا پیارا ملک ہندوستان ۱۹۴۷ء میں انگریزی سامراجیت ،تن کے اجلےچٹے من کے  کالے کو یہاں سے اکھاڑ پھینکنے میں کام یاب ہوا ،دشمن کا زخم اتنی جلدی بھرنا ممکن کیسے ہوگیا کہ جس ہندوستان کے وطنی  بھائی ہندو ،مسلم سکھ اور عیسائی باہم متفق ہوکر   تقریبا ایک صدی تک جنگ لڑ کر،اپنے حریف کو دھول چٹایا ہو ،وہی طاقتیں اپنی ذلت ورسوائی کو اتنی آسانی سے بھول گیئں  کہ  محض ۱۹؍ویں سال ہی ہندوستان میں مذہب ہندو کی ترقی اور سالمیت کے اتنے فکر مند ہوے کہ عالمی ادارہ کا قیام کربیٹھے ،مجھ کو تو صاف معلوم ہوتا ہے ،کچھ تو  ہے جس کی پردہ دری ہے جس کی نقاب کشائی ضروری ہے تا کہ ملک کی سالمیت کو دوبارہ انگریزی سامراجیت کے قبضہ سے بچایا جا سکے ،تو چلیے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں !،اس بات سے کسی کو مجال انکار کی نہیں کہ ملک دشمن طاقتیں ہمارے ہی ملک کے تعلیم یافتہ ،انٹلیکچویل ،بریلینٹ ،ذہین وفطین ،اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والے ڈاکٹرس ،انجینیر س اور سائینس دانوں کا استعمال ہمارے ہی خلاف  کرنے کی کوشش کر،رہے ہوتے ہیں ،ملک ہند سے ذلیل ہو کر یہ ذلیل انگریز ،ان کا زخم ابھی بھرا کہاں تھا بعد آزادی بھی وہ ہم سے جنگ لڑرہے تھے بس ہمارے ملک میں رہ کر جو جنگ لڑے وہ ،تیر وتبر،تلوار وتوپ اور بندوق ودیگر اسلحہ سے لڑ رہے تھے لیکن جب اپنے جاے قرار کو پہنچے تو جنگ کا طریقہ کار بدلا اب وہ ہم سے جنگ تعلیم ،ترقی ،عروج وارتقا کے حسین لباس میں لڑ رہے  ہیں،ہندوستان کی زمینی حقیقت سے آگاہ تھے ،ان کو معلوم تھا کہ سب سے اچھا ہتھیار ”مذہب“کی اصطلاح ہے ،انہیں تمام اسباب وعلل کی بنیاد کے پیش نظر مذکورہ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس میں ،ہائی ایجوکیٹیڈ مثلا  آئی آئی ٹی انجینیرس،پائلیٹ کی تیاری کر ،رہے طلبہ،ائی اے  ایس کے امید وار اسٹوڈنٹ کو اپنا شکار بنا کر ان کو ”اتیادھمک “بھگتی کے نام پر ان کا استحصال کرتی ہے اور وہ ان سے حسب منشا کام لیتی ہے ،مجھے یاد آتا ہے  مملکت ہند کے مشہور شہر احمد آباد میں ایک فیملی رہتی تھی جس میں ۳؍ افراد تھے ابو،امی،اور بیٹا (دھرمیش )،والدین اپنی ساری کمائی اس بیٹے کی پڑھائی میں لگا چکے تھے تاکہ ان کا بیٹا ایک  کام یاب انجینیر بن سکے جس سے ان کی زندگی کا سہارا مضبوط ہوجاے ،بڑھاپے کی لاٹھی بن جاے ،دھرمیش  کو اس تنظیم کے لباس خضر میں رہزن کے مصداق لوگوں نے ہائی جیک کرکے اس کو اس آرگنائزیشن سے جوڑ دیا ،اس تنظیم میں جانے کے بعد اس ہونہار  انجینیر کا برین واش کردیا گیا جس سے اب اس کونہ ماں کا خیال رہا نہ باپ کا جب کہ اس کے والدین  میں ماں پیر سے  ناکام اور والد  کے ہاتھ بے کار ہوچکے تھے ،وہ قرض میں بھی  ڈوبے ہوے تھے اور بیٹاآئس کان میں بھگتی کرکے اپنے بھگوان کو راضی کررہا تھا ،اب تو تک یہی پڑھاگیا ہے کہ کسی بھی دھرم میں ماں سے الگ اولاد کو نہیں کیا جاسکتا یہ کون سے مذہب کے پیروکار ہیں ،کس بھگتی کی بات کرتے ہیں جس نے بیٹےکو اپنے اپاہیج والدین کی مجبوریاں تک نہ دیکھنے دی ،جب اس طرح کے کئی کیسیز طول پکڑتےرہے تو ایک نیوز چینل اینکر کا دل پسیج گیا اور وہ اس کی نقاب کشائی پر کمربستہ ہوو،ایک ایک کو سامنے لاکر  پبلکلی کرتا رہا، لیکن اب  تک ہوئے کئی انٹرویوز میں یہ بات صف ہوئی  ہے کہ  بیٹے جن کے برین واش کر دیے گئے وہ اپنے والدین پر طرح طرح کے جھوٹ باندھ کر ،ان کو غلط ثابت کرنے کی بے جا کوششیں کرتے رہے ہیں  اور اس جال کے شکار ایک دو نہیں کئی ایسے تعلیم یافتہ نوجوان ہوچکے ہیں ،کتنے بوڑھے باپ کا سہارا چھنا  ہے ،کتنے گھر بربادی کے دہانے پر آگئے  لیکن بھگتی نہیں گئی ،کچھ اسما پیش ہیں ۱۔بھرت تیواری بن شیام سندر تیواری  جھانسی،تعلیم:ایم ٹیک آئی  آئی  دہلی ،۲۔بل بیر بن نریندر سنگھ راٹھور  بینگلور،تعلیم:سائنس داں،۳۔دیشانت پٹیل بن  رمیش پٹیل،تعلیم:انجینیر ،۴۔ پرشانت سانکھلا بن   ستّی دیو  اجمیر ،تعلیم:الیکٹرک انجینیر یہ صرف دو چار ہی نہیں ہیں تحقیق  کرنے پر آپ کی ڈائری بھر سکتی ہے لیکن مجال ہے کہ نام ختم ہوجائیں !اب آپ اپنی اولادوں کو ایسی تنظیموں سے  بچایئے اور حکومت کو بھی چاہئے  کہ ہوش کے ناخون لے ورنہ جن یوتھ کو ملک کے لیے استعمال ہونا تھا وہ نہ جانے کہاں استعمال ہوں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Comments