- یہ تحریر تقریباً ڈھائی ماہ قبل کی ہے جسے سوشل میڈیا پر احباب نے کافی پسند کیا اور ہماری آواز پر شائع کرنے کے لئے مجبور کیا۔ شکریہ
جس وقت میرے ہاتھوں میں قلم تھا اس وقت رات کے دس بج چکے
تھے،آج سے تقریباً ایک سال قبل ہمارے ملک کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی جی نے مفاجاتیہ
طور پر اعلان کیا کہ "آج نصف شب سے 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ (عوام میں) ردی
کاغذ کے مثل ہوجائیں گے" پھر کیا تھا ہر چہار جانب افراتفری سی مچ گئی سبھی
لوگ حیران وپریشان نظر آنے لگے بچے، جوان،
مرد وعورت یہاں تک قبر میں ایک پیر لٹکائے بزرگ بھی بینکوں کے قطار میں دکھنے لگے،
ملک کے معاشی حالات بگڑگئے، لوگوں نے اپنی دوکانیں اور کام دھندے بند کرکے بینکوں
کے چکر کاٹنے شروع کردئے، کتنے لوگ بیروزگار ہوگئے، حالات اسطرح ابتر ہوگئے کہ اس
کڑاکے کی سردی میں بینکوں کے چکر کاٹتے ہوئے کئی لوگوں نے اپنی جان تک گنوا دی اور
کسانوں کا تو برا حال تھا انہیں گیہوں کی بُوائی کرنی تھی جس کے لئے کھاد، بیج، پانی وغیرہ وغیرہ
سبھی چیزوں کا انتظام لازمی تھا ،لیکن بیچارے خود کے پیسے ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے
سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور تھے مگر دوسری اہم فکر بھی دامن گیر تھی کہ مانگے تو
کس سے سبھی کے حالات تو کچھ ایک جیسے ہی تھے ۔
بعد ازیں جناب وزیراعظم صاحب اور انکے ہمنواؤں کا بیان آیا
کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کالا دھن واپس آئے گا، ملک میں بیروزگاری کم ہوگی، ملک کا
وِکاس ہوگا لیکن نوٹ بندی کے بعد کالادھن واپس آیا کہ نہیں یہ تو صرف صاحب ہی کو
پتہ چلا،غریب عوام کی آنکھیں اس لائق کہاں کہ کالادھن دیکھے مگر آج نوٹ بندی کی
برسی پر سب سے اہم سوال کہ نوٹ بندی کے بعد سے ملک کا کتنا وکاس ہوا؟ ملک میں
بیروزگاری کتنی کم ہوئی؟ نوٹ بندی سے ملک کے غریب کسانوں کا کتنا فائدہ ہوا؟
از قلم: محمد شعیب
رضا نظامی فیضی
8/نومبر 2017
0 تبصرے